پروفیسر بشردوست بام خیل
امریکہ افغان اور ہم رمضان میں لکھنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ رمضان کی اپنی ایک دنیا ہے جہاں تراویح عبادات اور ذکر و اذکار کے علاوہ قران پاک کی تلاوت سے دلوں کو روح کو منور کرنا لکھنے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی کچھ ایسی واقعات تصاویر اور ملاقاتوں کی خبریں سن کر ضرور لکھنے کو جی چاہتا ہے .قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان نے کابل ائیرپورٹ پر حملہ کے مرکزی کردار شریف اللہ کو جب امریکہ کے حوالہ کیا تو نئے صدر ٹرمپ نے ہمیں شاباش دی جس پر ہم بہت خوش اور اکھڑ سے گئے اور جب یہ خبر آئی کہ بگرام ائیرپورٹ ٹرمپ کو پسند ہے اور وہاں پر پڑا اسلحہ سے بھی امریکی صدر کو محبت ہے تو ہم پھولے نہ سمائے اور سوچنے لگے کہ اب دوبارہ امریکہ اکر کابل کے اینٹ سے اینٹ بجا دے گا تو مزہ ائے گا اور طالبان بھی سدھر جائیں گے لیکن اچانک اس واقعہ کے بعد دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھی جس نے جنوبی اضلاع کو جلا کر رکھ دیا اور انھی دنوں میں وزیر اعلی خیبر پختونخواہ علی امین گنڈاپور بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے اجازت دیں تاکہ میں کابل سے براہ راست وفد کے ہمراہ بات چیت کروں تاکہ اگ کے یہ شعلے جس میں معصوم لوگ جل رہے ہیں اس کو ٹھنڈا کیا جا سکے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی اور جب پانی سر سے اوپر گزرا تو اچانک ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا ...یہ عجیب منظر دیکھ کر ہر پاکستانی صحافی اور سیاستدان اور عام ادی اور اس سٹرٹیجک خطے کی اہمیت سے باخبر رہنے والا اپنی جگہ سے کود پڑا جب ایک خوبصورت پروقار کمرہ میں امریکی وفد زلمے خلیل زاد اور امریکی صدر ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی ایڈم سیٹھ بوہیلر کے ہمراہ افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کر رہے تھے اور زلمے خلیل زاد وہی بندہ ہے جو ہمیشہ پاکستانی مفادات کے خلاف امریکہ میں بیٹھ کر افغانستان کے معاملات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے لیکن اس دفعہ وہ صرف امریکہ کے خصوصی ایلچی کے ساتھ مدد و رہنمائی کے لئے ائے تھے اور یہ بات بھی بڑی حیرت زدہ کرنے والی تھی کہ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں نے جزبہ خیر سگالی کے طور پر ان کا ایک ائیر مکینک ایڈم جارج نامی شخص کو بخوشی ان کے حوالہ کیا اور باگرام ائیرپورٹ پر اور اسلحہ کے بارے میں نرم رویہ رکھا جس کے جواب میں امریکی وفد نے سراج الدین اور دو اور رہنماوں کے سر پر لگی رقم کو ہٹانے کا وعدہ کیا.20 مارچ 2025 کو امریکی وفد نے کابل میں طالبان قیادت سے ملاقات کی، جس میں قیدیوں کے تبادلے، دوطرفہ تعلقات اور قونصلر امور پر بات چیت ہوئی۔ یہ ملاقات نہ صرف افغانستان بلکہ خطے کی مجموعی سفارتی سمت میں ایک اہم پیش رفت تصور کی جا رہی ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر طالبان حکومت کے مستقبل اور خطے میں نئی سفارتی صف بندیاں زیر بحث ہیں۔