
طاہر حنفی بنیادی طور پر شاعر ہے اور یہی اس کی وجہ شہرت ہے ،لیکن جب وہ نثر میں لکھنے بیٹھتا ہے تو انسانوں کے دکھ اپنے خط میں سمو لیتا ہے ۔ایسا ہی ایک خط انہوں نے میرے نام لکھ بھیجا ہے،میرے پاس ان کے ماسٹر جی کے دکھوں کا مداوا نہیں ہے ،میں تو اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کے قابل نہیں ،بس یہ سارے دکھ طاہر حنفی کے خط کی شکل میں اپنے کالم میں انڈیل رہا ہوں ۔وہ لکھتے ہیں کہ برادر بزرگ اسد اللہ غالب کے کالم انداز جہاں میں خاک نشین کے نئے شعری مجموعے آواز گم شدہ کے حوالے سے امریکہ یاترا کے تفصیلی تذکرے پر جہاں سات سمندر پار دوست اپنا ذکر پڑھ کر خوش ہیں وہیں میرے سکول کے زمانے کا ہم جماعت محمد صدیق المعروف ماسٹر جی مجھ سے سخت ناراض ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان واپس آنے کے باوجود میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور اس جیسے سینکڑوں ''بے بسوں ''پر روزانہ ٹوٹنے والی قیامت پر میرے جیسے حساس قلمکار لکھنے سے کیوں گریزاں ہیں ماسٹر جی کو یقین ہے کہ اس کو راضی کرنے کے لئے جو کچھ میں لکھوں گا غالب صاحب ایک غریب کی بپتا کو اپنے کالم میں ضرور جگہ دیں گے۔ ماسٹر جی کو میری طرح سرکار کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے سات برس ہو گئے ہیں اور وہ 2023 کے آغاز میں گھریلو ساز وسامان کی فہرست کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ دل کا کھلا ڈھلا ہونے کے باوجود اپنے دو بے روزگار ایف اے پاس بچوں اور ان کی بیمار ماں سمیت چھوٹے سے کنبے کو اپنی پنشن میں پالنا اس کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے اپنی بیمار بیوی کی دوائیاں پوری کرے تو باورچی خانہ کسمپرسی کی کہانی سناتا ہے طارے جی کبھی آئی ایم ایف کو ہماری بے بسی کی کہانی بھی سناو کہ سکے کے دونوں رخوں کو ملا کر کہانی لکھنے کا'' اپنا سواد '' ہے۔ ہو سکتا ہے آئی ایم ایف کی بات سن کر ہمارے حکمرانوں کے اللے تللوں میں سے'' کچھ'' ریزگاری پنشنروں کے لیے بھی نکل آئے۔ ماسٹر صدیق دکھے لہجے میں اپنی بپتا سنا رہا تھا کہ معآ سامنے ٹی وی سکرین پر بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کئی روپوں کے اضافے کی بریکنگ نیوز مجھ پر بجلی گرا گئی ماسٹر جی کس کس کا دکھ روئیں گے ہم کاش ہم سب بحیثیت قوم آنے والی کل کے دکھ پڑھنے کے عادی ہو سکیں ماسٹر جی کا خیال ہے ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے یا نہیں اس سے میرے سمیت کسی کا کوئی لینا دینا نہیں وہ کہتا ہے میں تو ساری عمر قناعت پسند رہا ہوں رمضان میں روکھی سوکھی کھا کر جیسے تیسے روزے گزار لوں گا لیکن سڑکوں کے کنارے دیہاڑی داروں کے ہجوم کا کیا بنے گا ماسٹر جی آپ کی کہانی اور دکھ میں غالب صاحب کو بغیر قطع برید کے بھیج رہا ہوں۔کیا سڑک کنارے بے روزگاروں کے اس ہجوم کی قسمت میں ملاوٹ شدہ مٹی لکھی ہوئی ہے ہر دس منٹ کے بعد وہاں پر موجود انتظامیہ کے لوگ ''بھتے''کی آس میں ہجوم اٹھانے بھگانے آجاتے ہیں ماسٹر جی بہت دکھی ہے کہتا ہے کہ گھر سے باہر نکل کر جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے اور خوف نے اس کو بکل ماری ہوتی ہے اس نے از راہِ مذاق مجھے کہا کہ اگر میرے پاس بابا آدم کے زمانے کا کوئی نوکیا فون ہو تو اسے گفٹ کر دوں تاکہ جب وہ مارکیٹ جائے تو اس بڑھاپے میں وہ فون چھیننے والوں کا اسم ہدف بننے سے بچ سکے ساتھ ہی کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں اس نے کہا میں جس آبادی میں رہتا ہوں وہاں اتفاق سے میرا کوئی شاگرد نہیں پھر اس نے مجھے ایک اور استاد کی کہانی سنائی کہ اس کو اندھیری رات میں تراویح سے واپسی پر فون چھیننے کی واردات میں اس کے شاگرد ملوث تھے جب ماسٹر جی کے سر سے چادر سرکی تو انہوں نے معافی مانگ کر بھاگنے میں عافیت سمجھی چلو اس بے حس معاشرے میں کسی نے تو اپنے استاد کی لاج رکھی۔ ماسٹر صدیق کی زبان شعلے اگلنا شروع ہوئی میری بوڑھی ہڈیاں افورڈ نہیں کر سکتی کہ میں ٹوٹی پھوٹی سڑک پر اپنی جوانی کے زمانے کی بائیسکل لے کر اپنی بیمار بیوی کی دوائیاں لینے جا سکوں گھر سے نکلنے لگتا ہوں تو بیوی آٹا لانے کی تاکید کرتی ہے اب تم مجھے بتاو کہ میرے لیے کیا چوائس ہے عام دکان سے مہنگا اٹا خرید کر کتنے دن کھاوں گا کیونکہ میری ہڈیوں میں اتنی جان نہیں کہ میں اپنی جان کے بدلے میں ایک تھیلا آٹا خریدنے کے لیے بھگدڑ زدہ ہجوم کے لیے عبرت کا نشان بنوں ماسٹر جی کی باتوں نے میرے چودہ طبق روشن کر دیئے تھے اس کی آواز میں دکھ تھا درد تھا وہ ان ٹھیلے والوں کے لیے دکھی تھا جن کو ایک غریب مگر بے لگام ہجوم لوٹ کر لے گیا تھا استاد استاد ہوتا ہے ہر عمر میں سکھاتا رہتا ہے اس کی آواز مجھے سر پر ہتھوڑے کی مانند لگی جب اس نے کہا کہ ابھی تو شروعات ہے جب گھر گھر بھوک اترنا شروع ہوئی تو کیا یہی سب کچھ گلی گلی میں نہ ہوگا ایک سنسنی سی میرے پورے بدن میں پھیل گئی کیا ہمارے ارباب بست و کشاد نے سوچا ہے اس مسلئے کا حل کس تکلف میں پڑے ہو میاں یہ باتیں چھوٹے لوگوں کے سوچنے کی ہیں بڑے لوگ تو اربوں کھربوں کمانے کی بات سوچتے ہیں ان کے منشیوں کی مہربانی ہوگی کہ وہ ''حلال''کمائی میں سے کچھ غریبوں کے ایک گروہ کو اس لیے دے دیں کہ کل کو جب ''میچ''ہوگا تو یہ لوگ اپنے تئیں صرف ایک آواز پر میدان میں اتر آئیں گے پھر سر بازار ایک نیا تماشا دیکھنے کو ملے گا اور ڈور ہلانے والے عوام کی خدمت کے لیے نئے پراجیکٹس میں اپنا ''جائز''حصہ طے کرنے میں مصروف ہوں گے کیا ہمارا پڑھا لکھا مگر پسا ہوا سفید پوش طبقہ ماسٹر جی کی طرح سوچتا ہے کیا وہ کبھی اس حقیقت سے آشنا ہوگا کہ کب تک وہ گھٹ گھٹ کر مرتا رہے گا اور کیا اسے اپنے زندہ رہنے کے لیے زندگی کو داو پر لگانا پڑےگا ماسٹر جی ہم جیسے سینکڑوں لوگ گناہگار ہیں جو اپنی اپنی ذات کے نیلام گھر میں کمفرٹ زون ڈھونڈ تے ہیں اور ہمیں اپنی ہمسائیگی میں پلنے والی بھوک کا علم نہیں ہوتا کیونکہ اس سوال کا جواب گوگل نہیں دے سکتا ہم سب گوگل کے ہاتھوں یرغمال بنی قوم ہیں اور جو کچھ ہمیں ''دکھلانا''مطلوب ہے وہی دکھایا جاتا ہے۔
ماسٹر جی کی باتوں نے میرے جسم میں سنسناہٹ پیدا کر دی ہے میں کپکپاتے ہاتھوں سے اس کی ''سیانی''باتوں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کب تک ماسٹر جی جیسے سفید پوش اپنی چادر دیکھ کر زندگی برتیں گے اور جن کی چادر اور اوقات ''بہت'' ہے وہ کب اس ملک کے ''اصل'' شہری ہونے کے ناطے اپنا''عملی حصہ'' ڈالیں گے۔اسی ادھیڑ بن میں رات بھیگنے لگی اور میری آنکھ لگ گئی مجھے محسوس ہوا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ماسٹر جی کے گھر پر ایک گاڑی رکی اور ایک شخص نے دوائیوں اور آٹے کا تھیلا ان کے حوالے کیا پھر میری آنکھ کھلی تو گھپ اندھیرا تھا اندھیرا روشنی سے دور تھا لیکن آپ کو خواب دیکھنے سے نہیں روک سکتا کئی برس پہلے پڑھا تھا کہ آپ اس لیے زندہ ہیں کہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھے گئے خوابوں کو عملی شکل دے سکو تو ماسٹر جی ایک نہ ایک دن کوئی آپ کے گھر دوائیاں اور آٹے کا تھیلا آپ کے کہے بغیر دے جائے گا۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ماسٹر جی میں آپ کا گناہگار ہوں میں آپ کو ایسے خوش رنگ خواب دکھا رہا ہوں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہر روز ایک نئے خواب کا چورن بیچتے اور خریدتے ہیں۔ کیوں ماسٹر جی غلط کہا مجھ گناہگار نے؟۔