
متحدہ عرب امارات میں تلاش معاش کیلئے سرگرداں پاکستانی محنت کشوں کے مالی حالات اور انکے مسائل کے بارے میں جاننے کیلئے یہاں اپنے مختصر قیام کے دوران میں نے اس مرتبہ سفیر پاکستان سے ملاقات کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ ابوظہبی میں اپنے سفارتخانے سے رابطہ قائم کرنے پر سفیر محترم کی ایگزیکٹو اسسٹنٹ محترمہ نادیہ کو جب اپنا مختصر تعارف اور سفیر محترم سے ملاقات کے بنیادی مقصد سے آگاہ کیا تو انہوں نے چند ہی روز میں سفیر محترم سے ملاقات کا وقت طے کرلیا۔
سفارتخانہ پہنچنے پر سفیر پاکستان فیصل نیازی ترمذی صاحب نے انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں انکی متحدہ عرب امارات میں تعیناتی ہوئی ہے جبکہ اپنی اعلیٰ تعلیم کا ایک حصہ وہ سکول آف اورینٹل اینڈ افریقین سٹڈی (ایس او اے ایس) میں مکمل کر چکے ہیں۔ ان سے آغاز گفتگو میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ علم و ادب‘ زباں و بیاں اور کتاب کے مطالعہ پر انہیں بھرپور دسترس حاصل ہے۔ مجھے یہ معلوم ہی نہ تھا کہ عزت مآب ترمذی برطانیہ میں ہمارے سابق ڈپٹی ہائی کمشنر حفیظ چودھری صاحب کے جو ان دنوں آسٹریلیا میں بطور ہائی کمشنر خدمات سر انجام دے رہے ہیں‘ بہترین دوست اور Batch Mate بھی ہیں۔ یہ انکشاف جناب حفیظ چودھری اور سابق پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع چودھری خورشید زمان نے اخبار میں شائع ہونیوالی میری تصویر کے بعد میرے وٹس ایپ پر کیا۔
بے حد شکریہ کے ساتھ ہی میں نے سفیر محترم سے پہلا سوال متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی کل تعداد کے حوالہ سے پوچھا۔ آپ کو پہلے یہ آگاہ کردوں کہ پاکستانیوں کا امارات میں تلاش معاش کے سلسلہ کا آغاز 50ءاور 60ءکی دہائی میں ہوا۔ اس وقت ہاں اتنی زیادہ تعداد نہ تھی مگر آج 16 سے 18 لاکھ کے قریب محنت کش متحدہ عرب امارات میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ پاکستانیوں کی مینول‘ فنی اور تکنیکی خدمات کو یہاں کس طرح دیکھا جاتا ہے؟ پاکستانیوں کو بلاشبہ یہ اعزاز حاصل ہے کہ انکی یہاں سرکاری‘ نیم سرکاری اور نجی شعبوں میں سرانجام دی گئی خدمات کی خصوصی پذیرائی کی جاتی ہے۔
میری خواہش تھی کہ ایک زمانے میں دنیا کی صف اول کی ”ہم باکمال لوگوں کی اپنی لاجواب سروس“ پی آئی اے کے زوال‘ شرمناک بھاری خسارے سے دوچار ہونے کی بنیادی وجوہات اور یورپی ممالک کیلئے پروازوں پر پابندی کے بنیادی اسباب کے بارے میں بھی جناب ترمذی صاحب سے پوچھوں مگر افسوس! وقت کی کمی کی بنا پر میں نے اپنے سوال کا رخ تبدیل کرلیا۔ امارات کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی کل تعداد کے بارے میں بتانا پسند کرینگے‘ قیدیوں کے مسائل سے سفارتخانہ کہاں تک آگاہ ہے؟
بہت اچھا سوال کیا نورانی صاحب آپ نے! چھوٹے موٹے جرائم دنیا کے ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملک میں ہوتے ہیں مگر متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کے مسائل اور جرائم کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔ ہمارے زیادہ تر پاکستانیوں کو یہاں اوور سٹے کی پاداش میں سزائیں کاٹنا پڑتی ہیں کہ ملازمت کے حصول میں ناکامی پر بیشتر افراد وطن واپس نہ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں اور یوں مدت سے زائد قیام پر انہیں سزا کاٹنا پڑتی ہے۔ دیگر جرائم میں منشیات‘ ہیومن ٹریفکنگ‘ فراڈ اور بعض حالتوں میں قتل میں ملوث پاکستانی یہاں سزائیں کاٹ رہے ہیں ہمارے ریکارڈ کے مطابق 18 سو کے قریب پاکستانی قیدی یہاں جیلوں میں ہیں۔ قیدیوں کے مسائل سے آگہی اور ان سے ملاقات کیلئے سفارتخانے کا نمائندہ ہر ہفتے جیل وزٹ کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارا اماراتی محکمہ داخلہ سے بھی رابطہ رہتا ہے۔ چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کی رہائی کیلئے بھی سفارتخانہ بالعموم اپنا اختیار بھی استعمال کرتا رہا ہے۔ اس ماہ مبارک میں بھی معمولی جرائم میں ملوث افراد کی رہائی ممکنات میں ہے۔ آپکی وساطت سے میں یہاں اپنے پاکستانیوں کو یہ خصوصی درخواست بھی کروں گا کہ اپنے آپ کو وہ کسی بھی نوعیت کے جرم سے دور رکھیں کہ پردیس میں اپنے وطن کی عزت و وقار کو ہر حال میں مقدم رکھنا ہے۔ پاکستان میں متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری سے آپ کہاں تک مطمئن ہیں؟ میں نے پوچھا۔ یواے ای حکومت پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہی ہے۔ تاہم بعض اوقات ٹرم اینڈ کنڈیشنز کی بناءپر رکاوٹیں پیدا ضرور ہو جاتی ہیں۔ مجموعی طور پر یو اے ای کی سرمایہ کاری قابل تعریف ہے۔ آپ کی ادبی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ بین الاقوامی امور و ادب اور کتاب کا مطالعہ آپ کے فارغ اوقات کا اہم ترین حصہ ہیں۔ کچھ بتانا پسند کریں گے؟ میرے اس سوال پر ترمذی صاحب نے بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے نورانی صاحب آپ انتھروپالوجسٹ بھی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مطالعہ کتاب کے بغیر اپنے آپ کو میں بوجھل تصور کرتا ہوں۔ آج گو یوٹیوب چینل‘ وٹس ایپ‘ وی لاگ اور فیس بک کا دور ہے مگر میری فکر و نظر میں اخبار اور کتاب کا مطالعہ آج بھی وسعت علم کا ذریعہ ہے۔ مجھے بے حد مسرت ہوئی کہ آپ کی کتاب ولایت نامہ نے مجھے برطانوی طرز معاشرے‘ آزادی کشمیر اور برطانوی پاکستانیوں کے مسائل سے استفادہ کرنے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادوں کہ کتاب سے میری چاہت کے بارے میں اپنی اہلیہ کے دیئے اس لطیف طعنے سے کہ ”کپڑوں سے کہیں زیادہ کتابیں میرے پاس موجود ہیں“ اکثر محظوظ ہوتا ہوں۔ آپ یقیناً حیران ہونگے کہ میرے پاس 15 ہزار کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے جو دوست اور عزیزوں کے گھر امانتاً رکھا ہوا ہے کہ سفارکاروں کے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ اس لئے کتابیں ساتھ نہیں رکھ سکتا۔