
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ان دنوں پاکستان کے تعلقات قریب قریب ویسے ہی ہیں جیسے کلاسیکی عہد کے شعراءکے محبوب کے اپنے محب سے ہوا کرتے تھے، یعنی محبوب ہر بار وعدے وعید پر ٹرخا دیتا ہے اور محب مسلسل اس کاوش میں لگا رہتا ہے کہ شاید کسی دن کسی بات سے خوش ہو کر محبوب اس کی بات مان جائے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو تو بیرونِ ملک سے لایا ہی اس دعوے کے ساتھ گیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف نامی محبوب کو رام کرنے کے لیے ایک ایسا منتر جانتے ہیں جسے پھونکتے ہی سنگدل محبوب ہمارے قدموں میں آ گرے گا لیکن ڈار صاحب کو آئے چھے مہینے ہوچکے ہیں اور وہ کوئی ایک نہیں بلکہ ہر طرح کے منتر بھی پھونک کر دیکھ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود محبوب اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہورہا۔ ہم نے تو خود بھی کئی بار اس کے قدموں میں گر کر دیکھا ہے کہ شاید اسی سے اس کا دل پسیج جائے۔
اب تو ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ ہماری ناصیہ فرسائی اور آئی ایم ایف کی بے پروائی میں راست تناسب پایا جاتا ہے، یعنی جتنا ہم گڑگڑا رہے ہیں وہ اتنا ہی ہم سے دامن بچا رہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کے اسباب کیا ہیں اور کیا ہم ہمیشہ آئی ایم ایف کے دست نگر رہیں گے؟ عالمی منظرنامے پر چیزیں جس تیزی سے بدل رہی ہیں انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کی اہمیت آنے والے دنوں میں کم ہوگی کیونکہ آئی ایم ایف صرف ایک بین الاقوامی ساہوکار ہی نہیں بلکہ یہ امریکا اور یورپ کے دنیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کا ایک اہم ہتھیار بھی ہے جس کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو امداد کے نام پر یوں اپنے زیر نگیں رکھا جاتا ہے کہ انھیں ایک خاص حد سے بڑھ کر آزادی کا احساس نہ ہو لیکن غلامی بھی ایسی ہو کہ وہ اسے اپنے لیے ایک نعمت اور رحمت ہی سمجھیں اور انھیں ایسا محسوس ہو کہ اگر یہ آسرا بھی نہ ہوتا تو ہم دنیا میں کہیں کے نہ رہتے! اس وقت بین الاقوامی سطح پر چین کا اثر و رسوخ جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے چین جو اقدامات کررہا ہے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلد ہی امریکا اور یورپ اور دنیا میں ان کے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرنے والے آئی ایم ایف جیسے اداروں کے اثر میں واضح کمی آئے گی۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین بطور ثالث کردار ادا کر کے چین نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بڑے بڑے بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ وہ معاہدہ جس کے تحت سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب لکھنے جارہے ہیں صرف چین کی اہلیت کا ثبوت ہی نہیں بلکہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں مغربی رسوخ ماند پڑ رہا ہے اور یہ بات امریکا کے لیے خصوصی تشویش کا باعث بن رہی ہے کیونکہ وہ کسی بھی صورت میں تیل کی دولت سے مالا مال اس خطے میں اپنا اثر کم نہیں ہونے دینا چاہتا۔
عالمی منظرنامے میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں وہ تو جو پیغام دے رہی ہیں سو دے رہی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان بھی تبدیلی کے اس عمل میں کہیں شریک ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت جو صورتحال ہے اس سے تو یہی مترشح ہوتا ہے کہ ہمیں بین الاقوامی معاملات سے کوئی سروکار نہیں، ہم بس اپنے ہی مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے اب صرف عوام ہی نہیں بلکہ ریاست کے اہم ترین اداروں کو بھی بری طرح متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ اس سب کی وجہ سے ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت اس طرف توجہ دینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اعتراض پاکستان تحریک انصاف پر بنتا ہے جس کے سربراہ سے لے کر عام کارکن تک سب لوگ ریاستی اداروں کے خلاف ہر طرح کی مہم چلانا نہ صرف جائز بلکہ اپنا بنیادی فرض سمجھتے ہیں۔
ہم اپنی کرنیوں سے خود کو اس سطح پر لے آئے ہیں کہ نہ تو بین الاقوامی ادارے ہم پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی دوست ممالک ہمارے لیے خوشی سے کچھ کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہاں، مجبوری کی وجہ سے کچھ اداروں اور ممالک کو بعض ایسے کام کرنے پڑیں گے جن سے ہمارے کچھ بھلے کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسے اقدامات سے کوئی بھی ملک بدترین صورتحال سے تو بچ سکتا ہے لیکن وہ اپنے پاوں پر کبھی کھڑا نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ ساڑھے چھے دہائیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہر بار آئی ایم ایف سے یہ کہہ کر قرضہ لیا کہ اب ہم ایسے کام کریں گے جن کی مدد سے ہمارے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے اور ہمیں مزید قرضے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد پھر ہم کشکول لے کر نکل پڑے۔ اگر واقعی ہم اپنے حالات میں کوئی بہتری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو طاقت کے تمام مراکز کو کچھ سخت اور کڑوے فیصلے کرنے ہوں گے لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ اس بار یہ فیصلے عوام نہیں بلکہ خواص کو سخت اور کڑوے لگنے چاہئیں۔