
پاکستان کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی دراصل ”فاقہ کشی“ ہوتی ہے ۔ یہ انتہائی سنگین صورتحال ہے کیونکہ تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل تک پاکستان میں بھوک شاید نہ ہونے کے برابر تھی مگر ڈیڑھ دہائی میں پاکستان کی نصف آبادی بھوک و فاقہ کشی کا شکار ہوگئی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ حکومتوں کی نااہلی‘ کرپشن‘ میرٹ کا قتل‘ بڑے آبی ذخائر تعمیر نہ کرنا اور ملک کے قدرتی وسائل سے استفادہ نہ کرنا ہے۔ اس وقت یہ صورتحال ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھوک و فاقہ کشی میں زبردست اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے اور میرے خیال میں حکومتی اعداد و شمار حقائق کے منافی ہیں بلکہ اصل صورتحال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔دنیا بھر میں رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر خصوصی رعایت کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں رمضان المبارک میں مصنوعی مہنگائی کا طوفان برپا ہوتا ہے جس پر کوئی قابو نہیں پاسکتا۔ کیونکہ جن کی مہنگائی پر کنٹرول کرنا ذمہ داری ہے وہ اور کاموں میں مصروف ہیں۔ پرائس کنٹرول کا ملک بھر میں کوئی نظام ہی موجود نہیں اور جس کی مرضی چاہے‘ جس قیمت پر چیزوں کی فروخت شروع کردے۔ اب سوشل میڈیا پر خبر ہے کہ رمضان المبارک سے ایک روز قبل خربوزہ 70روپے کلو تھا جبکہ اگلے ہی دن 200روپے کلوکردیا گیا۔ اسی طرح ہر‘ ہر چیز کی قیمت کو رمضان میں پر لگ جاتے ہیں۔ ناجائز منافع خوروں کو کوئی لگام دینے والا نہیں۔
مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ تو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈی کا خاتمہ ہے۔ پاکستان کو نیا قرضہ گیس و بجلی پر سبسڈی ختم کرکے مرحلہ وار قیمتیں دوگنی کرنے کے تحریری معاہدے کے بعد ہی دیا گیا۔ ہر مہینے کبھی گیس اور کبھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایشیاءمیں بجلی کی سب سے زیادہ قیمتیں ہونے کے باوجود عوام کو بجلی بھی نہیں مل پارہی۔
ہر سیاسی جماعت انتخابات میں عوام کا ہمدرد ہونے اور انہیں ریلیف دینے کی دعویدار ہوتی ہے مگر جب اقتدار میں آتی ہے تو ان کی ترجیحات صرف اور صرف جاگیردار‘ سرمایہ دار اور صنعتکاروں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ حکومت کا پرائس کنٹرول بالکل نہیں ہے اور ملک بھر میں جو جس قیمت میں چاہے اشیاءفروخت کرنے میں مکمل آزادی رکھتا ہے۔
پرائس کنٹرول دراصل بلدیاتی اداروں کا کام ہے اورکئی کئی سال بلدیاتی انتخابات نہ کرانے اور غیرموثر نظام حکومت نے عوام کی مشکلات میں زبردست اضافہ کیا ہے ۔جنرل مشرف کے دور حکومت کے بعد ملک بھرمیں کوئی قابل قدر ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کے ذریعے منظم اور موثر طریقے سے پرائس کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سال بھر کہیں بھی کوئی پرائس کنٹرول کرنیوالا نہیں ہے اور رمضان المبارک میں بھی غیر موثر پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال ہوجاتی ہیں لیکن رمضان المبارک سے قبل ہی منافع خور دودھ‘ دہی‘ پھلوں‘ سبزیوں‘ گوشت غرض ہر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کرچکے ہوتے ہیں اور پھر رمضان المبارک میں دکھاوے کی حد تک بڑھی ہوئی قیمتوں پر اشیاءکی فروخت کی چیکنگ کی جاتی ہے اور عوام کو یہ دلاسہ دیا جاتا ہے کہ آپ بے فکر رہیں‘ آپ کو ”سستی“ اشیاءکی ترسیل یقینی بنانے کے لئے پرائس کنٹرول کمیٹیاں اپنا کام کر رہی ہیں۔زیادہ تر بازاروں‘ مارکیٹوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹی کے چھاپے سے نصف گھنٹہ قبل ہی تمام دکانداروں اور ریڑھی والوں کو اس بات کی اطلاع مل جاتی ہے کہ کچھ ہی دیر میں چھاپہ لگنے والا ہے اس لئے وہ مجسٹریٹ کے آنے سے قبل ہی سرکاری قیمتوں پر اشیاءکی فروخت اس وقت تک شروع کر دیتے ہیں جب تک ”خطرہ“ ختم نہیں ہوجاتا اور پھر دوبارہ من مانی قیمتوں پر فروخت شروع ہوجاتی ہے۔
بہرحال پرائس کنٹرول کا پاکستان میں کوئی نظام نہیں اور جب تک دکانداروں کو ”ڈر“ نہیں ہوگا اس وقت تک قیمتوں کے ساتھ ساتھ معیار و مقدار درست ہونے کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا ۔ پرائس کنٹرول کو یقینی بنانے کے لئے وفاق و تمام صوبائی حکومتوں کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور رمضان المبارک میں بھی صرف دکھاوے کی حد تک چھاپے مارے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر عوام من مانی قیمتوں پر اشیاءخریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ غریب کا تو سال بھر اب ”روزہ“ ہی ہوتا ہے اور اس کو ایک وقت کا کھانا مل جائے تو غنیمت سمجھی جاتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ رمضان پیکج کے تحت سیاسی جماعتوں نے ٹرک بھر بھر کر اپنی پارٹی کے لوگوں کو سستا آٹا دیا جس پر حکومتی خزانے سے اربوں روپے سبسڈی دی گئی لیکن سیاسی لوگوں نے یہ سستا آٹا اپنے ذاتی گوداموں میں رکھنے کے بعد مہنگے داموں فروخت کرکے اپنی جیبیں بھریں۔اس بات سے ہر عام شہری اچھی طرح واقف ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لوگ صرف اور صرف ذاتی جیبیں بھرنے کے لئے رمضان پیکج کی اشیاءکا کوٹہ لیتے ہیں جو عوام تک نہیں پہنچ پاتیں اور مارکیٹ میں فروخت کردی جاتی ہیں۔اس بار یوٹیلٹی اسٹورز کے علاوہ رمضان پیکج کی اشیاءکی براہ راست عوام تک رسائی کو یقینی بنانے کے لئے موثر حکمت عملی ضروری ہے۔ خدارا پرائس کنٹرول کا ایسا مستقل موثر نظام ہونا چاہئے جس سے کوئی بھی قیمتوں کے تعین میں من مانی نہ کرسکے۔ رمضان المبارک میں مہنگائی کے طوفان سے عوام کو بچانا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔