جمعرات ‘ 8 رمضان المبارک 1444ھ‘ 29 مارچ 2023ء
مریم نواز 2 کروڑ 89 لاکھ کی مقروض ذاتی‘ گاڑی بھی نہیں
مسلم لیگ نون کی سینئر نائب صدر کے اثاثوں میں ان کی قرض کی کیفیت دیکھ کر تو کئی محبان مسلم لیگ یا شریف خاندان کے متوالے خون کے آنسو رو رہے ہوں گے۔ ان کے قائد کی بیٹی اور موجودہ رہنما مریم نواز شریف پر اتنے برے دن آئے ہیں کہ وہ ”بے کار“ بھی ہیں اور ان پر ایک کروڑ 89 لاکھ کا قرضہ بھی چڑھا ہوا ہے۔ حالانکہ اس حالت قرض میں بھی وہ اس وقت 84 کروڑ 25 لاکھ سے زیادہ مالیت کی اراضی کی مالکن ہیں تو پھر سمجھ نہیں آتا وہ قرضہ ادا کیوں نہیں کر رہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ بیرون ملک ان کی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ ان دستاویز کے مطابق کو حیرت کے کئی پہاڑ ان لوگوں پر ٹوٹ پڑ سکتے ہیں جو مریم نواز کے ناقد ہیں اور دن رات ان کی اندرون ملک اور بیرون ملک جائیدادوں اور بنک بیلنس کا رونا روتے ہیں۔ امید ہے وہ اس مزاحیہ رپورٹ کے بعد باجماعت قہقہے لگاتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے میں کامیاب ہوں گے۔ دستاویز کے مطابق مریم نواز کے اکاﺅنٹ میں صرف 78 لاکھ روپے موجود ہیں۔ معلوم نہیں اگر ہمارے سیاستدان اتنے ہی گئے گزرے ہیں تو ان کے شاہانہ اخراجات کس طرح ادا ہوتے ہیں وہ اپنی آرائش و زیبائش پر اور لباس کے علاوہ قیمتی گاڑیوں میں سفر اور ہوائی جہاز کے اعلیٰ درجے میں سفر کے اخراجات کس طرح افورڈ کرتے ہیں یہ کہاں سے آتا ہے۔ یہ سب کوئی مذاق نہیں۔ 78 لاکھ روپے بیلنس اور ذاتی گاڑی نہ رکھنے والی مریم نواز کے غیر ملکی دورے اور اندرون ملک آمدورفت کے اخراجات پر سوال تو بنتا ہی ہے۔ اب اگر یہ سارا گورکھ دھندا صرف ٹیکس بچانے یا پھر اثاثوں کو نظربد سے محفوظ رکھنے کے لیے ہے تو پھر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر یہ دستاویزی اعداد و شمار لوگوں کو شاید آسانی سے ہضم نہ ہوں گے اور عرصہ تک انکی تفریح طبع کا باعث ضرور بنیں گے۔
٭٭٭٭
چینی سائنسدانوں نے چاند پر پانی تلاش کر لیا
یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد تو ہمیں چاند کا مستقبل تاریک لگنے لگا ہے۔ کیونکہ روس، چین ، امریکہ جیسے بڑے ممالک خلا میں انسانی آبادیاں قائم کرنے اور وہاں اپنی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے۔ اب اگر چاند پر پانی کی مناسب مقدار پائی گئی تو وہاں یہ سب اپنی اپنی کالونیاں قائم کرنے کے لیے جان توڑ کوشش کریں گے یوں چاند آنے والے وقت میں ان بڑی طاقتوں کے لیے نئی جولا نگاہ کم اور میدان کارزار زیادہ بن جائے گا۔ یوں زمین کے بعد چاند پر بھی جو چاند ماری ہو گی اس کا تصور ہی ہولناک ہے۔ رات کے اندھیروں میں زمین پر روشنی بکھیرنے والا یہ سیارہ بھی انسانوں کی حماقتوں اور نفرتوں کے سبب تاریک ہو جائے گا۔ چاند وہ سیارہ ہے جو زمین والوں کے لیے ہمیشہ محبت کی علامت بنا رہا ہے۔ چاند چہرہ، میرے چاند جیسے الفاظ ہم روزانہ کہیں نہ کہیں استعمال کرتے ہیں۔ آج کل تو ویسے ہی چاند کی رونق اپنے جوبن پر ہے۔ فلک پر شام ہوتے ہی چاند کے اوپر نیچے پانچ روشن چمکدار سیاروں کا ہجوم اٹھکیلیاںکرتا نظر آتا ہے۔ ایک خوبصورت منظر دیکھنے والوں کا من موہ لیتا ہے۔ عطارد، زہرہ، مریخ ، مشتری اور یورینس ایک قطار میں چاند کے ساتھ یوں چمکتے ہیں کہ چاند کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اردگرد کے لوگوں کو اب اتنی فرصت بھی نہیں کہ وہ ذرا سر اٹھا کر آسمان پر بھی نگاہ ڈالیں جہاں ستاروں کی منڈلی اپنا رنگ جمائے بیٹھی نظر آتی ہے۔ شاعر نے تو کہا تھا
چاند کے پاس جو ستارہ ہے
وہ ستارہ حسین لگتا ہے
یہاں تو آج کل 5 ستاروں کی ایک ٹولی چاند کے پاس جمع ہو کر اہل جنوں کے جذبات کو اور مہمیز کر رہی ہے۔
٭٭٭٭
شازیہ مری کا بیگ ساتھ لے جانے کی اجازت نہ ملنے پر اجلاس کا بائیکاٹ
اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ناراض ہونے والی۔ کابینہ کے اس اجلاس میں مرد حضرات بھی جا معہ تلاشی کے بعد موبائل فونز باہر رکھ کر شریک ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق دروغ بر گردن راوی۔ اجلاس سے تمام سٹاف اور دیگر عملے کو بھی باہر نکال دیا گیا تھا۔ گویا صرف حکومتی اتحادی ارکان یعنی کابینہ ممبران نے شرکت کی تھی۔ لگتا ہے اہم اجلاس تھا اہم باتیں ہوئی تھیں اس لئے راز داری کو اہمیت دی گئی۔ ویسے بھی عمران خان نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ ہمیں بھی ہمارے دوست اندر خانہ معاملات سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد تو اتنی سختی بنتی ہی ہے۔ آخر اس بیگ میں کونسی ایسی قیمتی چیز چھپی تھی کہ شازیہ مری اس کے بغیر اجلاس میں شرکت کرنے سے انکاری تھیں۔ وہ تو حکومتی اتحادی تھیں انہیں تو کامل اعتماد ہونا چاہئے تھا کہ ان کا بیگ محفوظ ہی رہے گا۔ کوئی اس کی تلاشی نہیں لے گا۔ اسلئے وہ بیگ باہر رکھ کر بھی اجلاس میں شریک ہو جاتیں۔ مگر نجانے کیوں انہوں نے بیگ کو اتنی اہمیت دی کہ اسے ایک لمحے کے لئے بھی خود سے جدا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ لگتا ہے یہ کوئی خاص بیگ ہے جس کے بنا شازیہ مری کہیں آتی جاتی نہیں اور کسی خوشی کی ہو یا غمی کی تقریب میں شرکت بھی نہیں کرتیں۔ اس لئے انہوں نے اس بیگ کو اپنے سے جدا کرنے کی بجائے کابینہ کے اہم اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ بہرحال اجلاس تو ہو گیا اور اس اہم اجلاس میں جو کچھ طے ہوا وہ بھی آہستہ آہستہ سب کے سامنے آتا جائے گا۔ لگتا ہے حکومت اپنے پتے نہایت راز داری کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے۔ جبھی تو اجلاس میں کابینہ کے ارکان کے علاوہ کسی کو دخل در معقولات کی اجازت تک نہ تھی۔
٭٭٭٭
مفت آٹا سینٹرز آج سے صبح 6 بجے کھلیں گے: محسن نقوی
وزیراعلیٰ پنجاب کو اب کوئی جا کر بتائے کہ مسئلہ سینٹروں کی تعداد کا ہے جو بہت کم ہے اور آٹے کے طلب گار بہت زیادہ ہیں۔ یہ وہی ایک انار سو بیمار والا معاملہ ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب سفید پوش بھی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے طویل قطاروں میں سر جھکائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر تھا کہ جن مستحقین کے نام اور پتہ حکومت کے پاس درج ہیں وہ ان کو گھر کی دہلیز پر آٹا فراہم کرے۔ اس طرح ایک تو مراکز پر رش کم ہو جائے گا اور غیر رجسٹر شدہ سفید پوش مستحقین بھی آسانی سے شناختی کارڈ کی کاپی دے کر آٹا حاصل کریں گے۔ ورنہ دیکھ لیں مفت آٹے کا نام سن کر ہی لوگ ایسے دوڑے چلے آتے ہیں گویا قیامت برپا ہو گئی ہے۔ ویسے بھی یہ پیٹ تو ہے ہی پاپی۔ پہلے انسان روٹی کھاتے تھے اب آج کل تو واقعی روٹی بندہ کھا جاتی ہے۔ اب تک کئی افراد جن میں بیمار‘ بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہیں بھگدڑ میں جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ اب شاید وقت میں اضافہ کرنے کے ساتھ مفت آٹا فراہمی مراکز کی تعداد بھی زیادہ ہونے سے امید ہے کہ مسائل میں کمی آئے گی۔ اسی رش اور بھگدڑ کی وجہ سے ہزار غیر مستحق بھی جعلی کوپن دے کر دا
¶ لگا جاتے ہیں۔ بعد میں آٹا بازار میں فروخت کرتے ہیں کئی لوگ پکڑے بھی جا چکے ہیں مگر افسوس دو نمبری کرنے والے باز نہیں آتے وہ بدبخت مستحق غریبوں کا بھی حق مارتے ہیں اس سے ہماری اخلاقیات کا اندازہ لگائیں کہ کھاتے پیتے لوگ بھی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کا دا
¶ لگ جائے اور وہ 3 تھیلے حاصل کر لیں۔ اس کا سدباب کرنا بھی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔