
پاکستان کے مسائل ، یہ چند دن کی بات نہیں
سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
ایک تو پاکستان کی مشکلا ت عجب سی ہیں ،اور یہ مشکلات کل پرسوں کی بات نہیں ہیں۔یہ سالہا سال سے چلی آرہی ہیں لیکن ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اور توجہ نہ دینے کے باعث یہ مشکلا ت بڑھتی ہی چلی گئیں ہیں اور اب ایک گھمبیر شکل اختیار کر چکی ہیں۔آبادی کا دن دگنی اور رات چگنی رفتار سے بڑھنا اور اس کے بعد اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی تربیت نہ کرنا ایک جرم ہے جس کا حساب پاکستان کی ساری حکومتوں کو دینا چاہیے۔53ءسے لے کر آج تک کی ہر حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔لیکن شومئی قسمت کہ اس چیز کا حساب لیا جانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔آسان کام صرف الیکشن کروانا ہی رہا ہے اور ہمارے ملک میں ہر کام الیکشن سے ہی ریلیٹ کرتا ہے۔ہمارے ملک میں الیکشن بھی تنازع کا شکار رہے ہیں۔کبھی جگتو فرنٹ تو کبھی پی این اے اور کبھی ما رشل لا ئ بلکہ کبھی نہیں بلکہ اکثر اوقات میں مارشل لا ءآج ہندوستان کو دیکھ لیں تو ان کی ترقی کا راز یہی معلوم ہو تا ہے کہ وہ توتر کے ساتھ الیکشن کرواتے رہے ہیں۔اور حال ہی میں ہندوستان کے سیاسی منظر نامے پر بھی بڑی پیشرفت ہوئی ہے کہ جب کانگریس پارٹی کے لیڈر اور ہندوستان کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کو نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔بات یہ ہے کہ ہندوستان میں اپنے وزیر اعظم اور حکومت کی عزت کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں چور چور کی گردان ختم نہیں ہوتی ہے۔لیکن الزام لگانے والوں سے ان کے الزامات کا کوئی جواب نہیں لیا جاتا ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم ایک نہایت ہی جذباتی قوم ہیں اور مستقبل کے لیے ہماری کوئی سوچ ہی نہیں ہے۔مستقبل کے لیے سوچنا ہی لیڈر شپ کا کمال ہے ،لیکن لیڈران عزام صرف آج کے لیے سوچتے ہیں سوچتے ہیں کسی طرح یہ پانچ سال گزارو بعد کی کس کو فکر ہے۔اور اسی سوچ نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی ایڈہاک پالیسی سے اور اس قسم کی ایڈہاک سوچ سے قومیں نہیں بنا کرتی ہیں بلکہ مزید بگڑتی چلی جاتی ہیں۔آج ہم ایک بگڑی ہو ئی قوم ہیں۔اور ہمیں ایک عظیم لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ایسی لیڈرشپ کی جو کہ قوم کو بگڑانے کی بجائے سنوارے جو کہ قوم میں تقسیم اور نفرت پھیلانے کی بجائے قوم کو جوڑے اسی میں قوم او ر ملک کی بہتری ہے۔پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے رویوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ایک بہترین قیادت وقت کی ضرورت بن چکی ہے لیکن افق پر کہیں دور دور تک اس کے آثار نظر نہیںآرہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام قیادت مل کر بیٹھے اور پارلیمان کے اندر اور پارلیمان کے باہر جتنی بھی بڑی سیاسی جماعتیں اور قیادت موجودہ ہے ان سب کو ایک گول میز کا نفرنس میں اکھٹا کیا جائے اور ان کو ساتھ بٹھایا جائے اور ملک کو درپیش سنگین مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ملک کے معاشی مسائل کا حل کرنا بہت ضروری ہے۔اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قیادت کی مشترکہ لیڈر شپ کی اجمتاعی دانش مندی کو بروئے کا ر لایا جائے۔زراعت کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس کے بغیر یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔مل کر حل نکالنے سے ہی یہ کام آسان ہو گا۔تعلیم کو لازمی کرنا اور اور اس کے بجٹ میں اضافہ کرنا ،ہو گا اس کے بغیر آپ کے ملک کی آبادی وہ سککلز حاصل نہین کر سکے گی جو کہ وقت کی ضرورت اور موجودہ دنیا میں ترقی کی ضرورت ہے۔تعلیم کے ذریعے ہی شہری اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل ہو تے ہیں ،لیکن ہمارے ہاں شہریوں کی ذمہ داریوں کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔لیکن اچھی تعلیم اور تربیت کے ذریعے اس سوچ کو بدلا جاسکتا ہے۔اس لیے اگر زراعت پر توجہ دی جائے جو کہ اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو ملک کی معیشت میں کافی حد تک بہتری آسکتی ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک میں زرعی شعبہ ہی اس وقت سب سے کمزور ہے۔زر خیز زمینوں پر ہاوسنگ سوسائیٹیاں کھڑی کی جا رہی ہیں اور اس سے اس ملک کی زرعی پیدا وار اور زرعی ترقی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔اس ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔پرانا مقولہ ہے کہ اتفاق میں ہی برکت ہے۔اور اتفاق سے چلنے میں ہی سب کا بھلا ہے۔ہمیں اس حوالے سے سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ہماری سیاسی جماعتوں کا اولین مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیے تاکہ ملک کو آگے بڑھایا جاسکے۔
ملک کو اجتماعی دانش کی اشد ضرورت ہے ،جس گھمبیر ترین صورتحال میں ملک اس وقت ہے اس میں ضرورت اسی بات کی ہے کہ ادارے اور سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آئیں اور ملک کے پییج پر آئیں اسی طرح آگے بڑھنے کا راستہ نکالا جاسکتا ہے۔سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ ملک کی تباہی کا راستہ ہے۔اس روش کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے۔چور چور اور ڈاکو ڈاکو کی گردان سے نکلنے کی ضرورت ہے۔جمہوری طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اسی طرح سے ملک کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔