
قومی اسمبلی نے ایک قرارداد میں کہا ہے کہ ہم الیکشن پر سوموٹو کے 3/4 والے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ 3/4 کے فیصلے سے مراد وہ اکثریتی فیصلہ ہے جس میں 4 ججوں نے سو و موٹو لینے کے اقدام کو خارج کر دیا تھا اور جس کے نتیجے میں الیکشن کمشنر کا وہ نوٹس بھی ختم ہو گیا جس میں اس نے 30 اپریل کو صوبائی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اتفاق بہت ہی نادر قسم کا یہ ہوا کہ شہرت 2/3 کے فیصلے کو ملی جس میں الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
بہرحال، یہ قضیہ اصولی طور پر تو نمٹ گیا، عملی طور پر کیا ہونا ہے اس کا فیصلہ 5 رکنی بنچ کے پاس ہے اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کس فیصلے کے ساتھ ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت اس بات کو ہے کہ عمران خان کس فیصلے کے ساتھ ہیں۔
اب تک فیصلے کرنے والے ایوانوں کا ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ جو بات عمران خان کر دیں، وہی حق سچ ہے، فیصلہ اسی کے حق میں آئے گا۔ دلیلیں دینے والے جو بھی دلیلیں دیتے پھریں، حق سچ سرکار نے جو کہہ دیا ، سو کہہ دیا۔
____
قومی اسمبلی میں کچھ عدالتی اصلاحات کی گئی ہیں جس پر پی ٹی آئی توقع کے عین مطابق یا توقع سے کچھ بڑھ چڑھ کر سیخ پا ہے اور کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے عدلیہ پر چڑھائی کر دی ہے۔
اصلاحات میں کہیں سے بھی چڑھائی کا تاثر نہیں ملتا۔ سو و موٹو لینے کا ضابطہ مقرر کیا ہے کہ تین سینئر ترین جج مل کر اس کا فیصلہ کریں۔ کیا آئین کے اندر رہتے ہوئے ضابطہ بنانا چڑھائی کرنا ہوتا ہے؟۔ ویسے یاد آیا، کسی زمانے میں پی ٹی آئی کے ایک محبوب چیف جسٹس کھوسہ صاحب ہوا کرتے تھے، انہوں نے ریٹائر ہونے سے قبل عین میں یہی تجویز دی تھی کہ تین سینئر ججز مل کر سوموٹو کا فیصلہ کریں۔ پی ٹی آئی نے اس وقت تو یہ نہیں کہا تھا کہ کھوسہ صاحب نے جانے سے پہلے اپنے ہی ادارے پر چڑھائی کر دی ہے۔
سوموٹو نے ماضی میں کئی مذاق بنائے۔ وہ ڈیم والے چاچا جی ہر شام یہ فیصلہ کر کے سوتے تھے کہ کل فلاں اور فلاں مسئلے پر سوموٹو لینا ہے۔ پھر اس سوموٹو کے تحت وہ کبھی کسی ادارے کے کچن میں گھس جاتے اور برتن اْٹھا اْٹھا کر پھینکنا شروع کر دیتے، کسی کے دفتر میں دھاوا بولتے اور میز پر بیٹھے شخص کا موبائل اْٹھا کر پٹخ دیتے۔ کسی فیشن ڈیزائنر کو بلا لیتے اور کہتے ، تم نے یہ کیا لباس پہن رکھا ہے، تمہیں لباس پہننے کی بھی تمیز نہیں۔ کسی ادارے کے افسر اعلیٰ کو بلا لیتے اور پوچھتے، تمہاری تنخواہ اتنی زیادہ کیوں ہے، میرے بھائی کی تو اتنی نہیں، کیوں نہ تمہارا ادارہ بند کر دیں، پھر وہ ادارہ بند ہی ہو گیا۔
آخر میں یہ سو و موٹو صاحب ڈیم فنڈ صاحب لاپتہ ہو گئے۔ اب خود تو نمودار ہو گئے ہیں لیکن ڈیم فنڈ غائب ہے۔
____
دنیا بھر کی جمہوریتوں میں پارلیمنٹ ریاست کا بالادست ادارہ ہوتا ہے۔ باقی سب اس کے پابند ہیں۔ پاکستان میں معاملہ اْلٹا رہا۔ یہاں باقی سب بالادست اور پارلیمنٹ ان سب کی زیر دست ۔ پارلیمنٹ نہ ہوئی، در و پدی ہو گئی، پانچ پانڈوؤں کی اکلوتی بیوی۔
پون صدی کے بعد حالات بدلے، نئی مہابھارت کتھا لکھی جانے لگی ہے۔ ایک طاقتور بلکہ طاقتور ترین ادارے نے یہ اعلان کیا کہ امور سیاست میں مداخلت ہمیں روا نہیں اور ہم جو کچھ اب تک کرتے رہے، اب سے نہیں کریں گے۔ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ عمران خان کو یہ اعلان ناپسند ہوا اور اب ان کی پارٹی پارلیمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کر رہی ہے، کچھ اور دلیل نہ ملا تو قانون سازی کو چڑھائی کا نام دے دیا۔
عمران خان جو کہتے ہیں، ان کی دانست میں وہی حق ہے، وہی سچ ہے اور وہی امر بالمعروف ہے۔ ’’خود ایمانی‘‘ کی اس فضا کے جادو میں وہ اس بری طرح گرفتار ہیں کہ کھول آنکھ، زمین دیکھ فلک دیکھ، فضا دیکھ کی فہمائش والے شعر کی طرف دھیان ہی نہیں دے رہے۔ نہ دیں، ہونی کو ان کی ضد ٹال سکتی ہے نہ ان کے سہولت کاروں کی سہولت کاری۔
____
امریکی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست پر سابق امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد نے جو کچھ ارشادات حال ہی میں فرمائے ہیں، وہ ان کی ذاتی رائے ہے، امریکہ یا اس کی حکومت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔
اسی کالم میں چند روز قبل یہ لکھا تھا کہ زلمے خلیل زاد امریکی ہے، امریکہ نہیں لیکن پی ٹی آئی یہ ضد کرتی رہی کہ نہیں، وہ امریکہ ہے، امریکہ نے ہمارے جہاد حقیقی آزادی کی تائید کر دی، اب تو ہم آزاد ہو کر ہی رہیں گے۔
بہرحال، یاد آیا کہ کل اس سائفر کی پہلی سالگرہ ہے جو عمران خان نے حکومت سے اپنی رخصتی رکوانے کے لیے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دور میں لہرایا تھا اور کہا تھاکہ امریکہ ہماری آزادی سلب کرنا چاہتا ہے، سازش کرکے میری حکومت ہٹانا اور اپنے غلاموں کو برسراقتدار لانا چاہتا ہے۔
توقع تھی کہ سالگرہ پر پی ٹی آئی سائفر کی پھر رونمائی کرے گی، کوئی دھوم دھام والی تقریب منائے گی لیکن حیرت ہے، سائفر کا کچھ پتہ ہی نہیں یہاں کیا ، کہاں کئی ماہ تک مسلسل ہر طرف سائفر کے ترانے ، کہاں اب اس کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں؟
سائفر کا اگر دیہانت ہو گیا ہے تو سالگرہ نہ سہی، کوئی تعزیتی ریفرنس ہی سہی۔ اب امریکہ نے زلمے خلیل زاد سے لاتعلقی ظاہر کر کے ایک اچھا موقع تو دے ہی دیا ہے۔
____
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پھر عمران خان کی کمک بن کر سامنے آئے ہیں۔ دھمکی دی ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں ورنہ جمہوریت چلی جائے گی۔
سیاسی جماعتیں کون سی؟۔ سیدھا ترجمہ محترم کے بیان کا یہ ہے کہ عمران خان سے مذاکرات کریں۔ معاملہ کئی مہینوں کے اْلٹ پھیر کے بعد یہ ہو گیا ہے کہ ’’میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلمان ہو گیا‘‘۔
آٹھ دس مہینے حکومتی جماعتیں کہتی رہیں کہ مذاکرات کر لو لیکن خان صاحب بلندو بالا فضائوں میں اْڑ رہے تھے، ہر بار فرماتے، مر جائوں گا، خودکشی کر لوں گا، اس چور ڈکیت ٹولے سے مذاکرات نہیں کروں گا، ان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ناں، بالکل ناں،
اب فضا سے نیچے آتے ہیں تو خود اپیلیں کر رہے ہیں، کبھی شاہ محمود قریشی سے کروا رہے ہیں، کبھی ایلچی بھجوا رہے ہیں کہ ’’بام پر آ ذرا خدا کے لیے شکل دکھلا دے کبریا کے لیے‘‘ لیکن ، اب حکومت ڈٹ گئی ہے کہ ناں، آپ سے مذاکرات، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جب حکومت کہہ رہی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی، تب محترم نے یہ بیان نہیں دیا کہ خان صاحب مذاکرات کر لو ورنہ جمہوریت چلی جائے گی۔
سراج الحق صاحب کو افسوس تو ہو گا لیکن سچ یہی ہے کہ جمہوریت نہیں جائے گی۔ ان کی دل پشاوری کے لیے کوئی پرویز مشرف آئے گا نہ باجوہ۔ اب تو اس جمہوریت کے ساتھ ہی نباہ کرنا ہو گا جو کسی طور جاتی نظر نہیں آتی۔
____