قائد اعظم ؒسے لے کر آج تک کشمیر پر ایک ہی قومی بیانیہ ہے جس کا اظہار آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سکیورٹی ڈائیلاگ کے خطاب میں کیاہے۔کشمیر کے قومی بیانیے سے جس کسی نے انحراف کیا اور جب بھی کیا اس نے حریت پسند کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔جنرل باجوہ نے ضرور کہا ہے کہ ہمیں ماضی کو دفن کر دینا چاہئے ،مگر انہوں نے اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر بار بار کیاہے،کشمیر کا مسئلہ تب دفن ہوا تھا،جب نریندر مودی اور اس کے ایک سو بیس ساتھی بغیر کسی ویزے کے لاہور ایئر پورٹ پر اترے اور جاتی امرا میں انہوں نے مہرالنسا کی شادی کا پلائو ڈکارا۔
قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، انہوں نے اسے اقتصادی شہ رگ بھی کہا،پاکستان کے لفظ میں ’’ک‘‘ جوہے،وہ کشمیر کی نمائندگی کرتاہے۔اوریہی نام بانی پاکستان نے نوزائیدہ مملکت کا تحویزکیا تھا ۔قائد اعظم ؒ کی زندگی میں بھارتی فوج نے کشمیر کیخلاف جارحیت کی تو گورنر جنرل کی حیثیت سے انہوں نے اپنے انگریزآرمی چیف کو حکم دیا کہ وہ بھارت کو وہاں سے دھکیلنے کیلے فوجی آپریشن کریں،اس دوران قبائلی لشکر اور میجر جنرل اکبر خان رنگروٹ کی کمان میں پاک فوج کے دستوں نے بڑی تیزی سے کشمیر کا بڑا حصہ آزاد کرا لیا۔ بھارتی فوج کو شکست نظر آئی تو پنڈت نہرو سلامتی کونسل جاپہنچااور اس نے سیز فائر کی بھیک مانگی،سلامتی کونسل نے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بند کروا دی اور حکم دیا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک آزادانہ،غیرجانبدارانہ اور منصفانہ استصوابِ رائے کے ذریعے حل کیا جائے،بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم تو کیا مگر ستر سال گزر جانے کے بعد اس پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آنے دی۔
پاکستان کی ہرحکومت کشمیریوںکیساتھ کھڑی رہی ہے ، پیپلز پارٹی کے بانی اور وزیر اعظم بھٹو نے تو اعلان کیا تھا کہ وہ کشمیر کے لیے ہزار سال تک لڑیں گے، پاکستانی قوم نے کشمیریوں کے شانہ بشانہ جدوجہد ِآزادی میں کردار ادا کیا ۔مگر نائن الیون کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کوامریکہ کا حکم ملا کہ پاکستان کشمیریوں کی حمایت سے باز رہے اور پاکستان کی سرزمین کشمیر کے اندر مداخلت کیلئے استعمال نہ کی جائے ۔ یوں کشمیری عوام پاکستان کی عملی حمایت سے محروم ہوگئے مگر عمران خان نے جنرل اسمبلی کے خطاب میں واضح کیا کہ برصغیر کے دونوں ملک ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں اور اگر کشمیر کا مسئلہ پر امن طور پر حل نہ کیا گیا تو خطے میں ہونیوالی تباہی کادائرہ برصغیر کی حدوں سے باہر تک پھیل جائے گا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی مودی کو پیشکش کی تھی کہ وہ ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم دس قدم آگے بڑھیں گے مگر دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے فاشزم کا مظاہرہ کیا اور کشمیریوں کے حقوق کچلنے کے لیے اپنے آئین میں ترامیم تک کر ڈالیں۔ پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کی بھرپور مذمت کی اور پانچ اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ فروری میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے ،جولائی میں کشمیری شہدا کو سلام عقیدت پیش کیا جاتا ہے، وزیر اعظم کشمیریوں کو یقین دلا چکے ہیں کہ وہ کشمیر کاز کے وکیل اور سفیر کا کردار ادا کریں گے۔
جنرل باجوہ نے اسی سپرٹ کو آگے بڑھایا ہے ،انہوں نے صاف کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا ۔انہوں نے بھارت کو پیشکش بھی کی ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے ۔افواجِ پاکستان نے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کیلئے انشی ایٹو لیا تاکہ وہ سازگار ماحول پیدا کیا جاسکے جس میں دونوں ملک اعتماد کے ساتھ رو برو بیٹھ سکیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے استصوابِ رائے کے انعقاد کیلئے روڈ میپ طے کیا جاسکے۔
جنرل باجوہ کی تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مڑور کر پیش کرنے والے ،پہلے اپنی صفائی تو دیں کہ انہوں نے کیوں کہا کہ یہ واہگہ کی لکیر مٹ جانی چاہئے ، انہوں نے کیوں کہا کہ ہم بھی وہی دال بھات کھاتے ہیں جو سرحد پار کے لوگ کھاتے ہیں،نواز شریف مودی کی حلف برداری کی تقریب میں گئے تھے، انہوں نے حریت کانفرنس کے نمائندوں سے ملاقات سے کیوں انکار کیا تھا۔نواز شریف کی زبان پر آج تک کلبھوشن کا نام کیوں نہیں آیا ۔زرداری دور میں کشمیر سنگھ کو قومی جھنڈے والی کار میں بٹھا کر واہگہ کیوں لے جایا گیا ۔جس نے بھارت میں قدم رکھتے ہی اعلان کیا کہ وہ مسلمان نہں ہوا تھا ،نواز شریف نے سعودی عرب میں اسٹیل مل لگائی تو اس میں بھارتی انجینیئرز کی خدمات حاصل کرکے کیا انہوں نے کشمیر کاز کو تکلیف نہ پہنچائی تھی۔سیانے کہتے ہیں کہ کسی پر پتھر پھینکنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ خود آپ بھی شیشے کے گھر میں بیٹھے ہیں ۔
آج فوج اور حکومت ایک پیج پر ہے۔تو کشمیر کے مسئلے پر بھی دونوں کا متفقہ اور یکساںموقف ہے،آج بھارت کی خوشنودی کے لیے اسلام آباد میں کشمیر ہائوس کے بورڈ نہیں ہٹائے جاتے ،نہ پی ٹی وی سے کشمیری خبرنامہ غائب کیا گیا ہے بلکہ جب سے پانچ اگست کا سانحہ رونما ہوا ہے تو پی ٹی وی پر جموں سری نگر ،کارگل اور لداخ کے موسم کا حال بتایا جارہا ہے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا ،وہ کشمیر پر تو قبضہ کر ہی چکا ہے مگر اس نے 71ء میں پاکستان کو بھی دولخت کردیا تھا اور آج نریندر مودی دندنا تے ہوئے کہہ رہا ہے کہ وہ بلوچستان ،آزاد کشمیر ،گلگت کے عوام کو بھی اسی طرح حقوق دلوائے گا جس طرح بھارتیوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو حقوق دلوائے تھے۔یہ بھارت کی گیدڑ بھبکیا ں ہیں ،اسے معلوم ہے کہ وہ میدان جنگ میں پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پاکستان بھارت سے کہہ چکا ہے کہ ہم کولڈ اسٹارٹ یا ہاٹ اسٹارٹ کے لیے تیار ہیں ۔ جنرل باجوہ نے تو بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کے خوابوں کو چکنا چور کردیا۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے در اندازی کی تواسے منہ توڑ جواب دیا گیا،اس کے دو جہاز گرے اور ایک کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نند ن کو گرفتار کیا گیا ۔ بھارتی فوج کا مورال گر چکا ہے اور وہ پاکستان کی مسلح افواج کے دبائو میں ہے ،چین نے بھارتی افواج کی الگ پٹائی کردی ہے ۔وائٹ ہائوس میں حکومت کی تبدیلی سے ہوائوں کا رخ پلٹ گیا ہے ۔اس لیے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل باجوہ نے امن کا آفنسیو لانچ کیا ہے ،اب اس کا انحصار بھارت پر ہے کہ وہ ہمارا ہاتھ تھامتا ہے یا اسے جھٹک دیتا ہے ۔ پاکستان جنرل باجوہ کے بقول کسی طور پر کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر حالات کو معمول پر لانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جنرل باجوہ ضرور چاہتے ہیں کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ شروع ہو،پاک بھارت تجارتی روابط بھی استوار ہوں،کرتارپور راہداری سے بھی انہوں نے قیام امن کی خواہش کا سگنل دیا ۔ جنرل باجوہ کے بیانیے کو آگے بڑھاتے ہو ئے صدر مملکت عارف علوی نے یوم پاکستان کی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔صدر مملکت نے جنرل باجوہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کشمیر یوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ تن کر کھڑا رہے گا۔
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38