امید کی کرن
دن بہ دن یہ احساس ہوتا جارہا ہے کہ کرونا وائرس کا مقابلہ انسانیت کے بس میں نہیں۔ اس سے یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ اس عالمی عذاب کا نازل ہونا ہمارے پروردگار کی ناراضگی کا اشارہ ہے یا نہیں۔ جو لوگ ہمیشہ سے کاروبار انسانیت کو حکم خدا وندی سے جدا کرکے دیکھنے کے عادی ہیں بضد ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور یہ سب انسانوں کی ہی سازش ہے جو وہ ایک دوسرے کے خلاف کررہے ہیں۔ کوئی اسے معاشی جنگ کا حصہ قرار دے رہا ہے جس کے تانے بانے چین اور امریکہ کے بین الاقوامی معاشی اور تجارتی ڈھانچے پر قبضے کی کوششوں سے ملتے ہیں اور کوئی اسے اسرائیل کی مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دے رہا ہے۔ اس تمام صورت حال سے وہ مشہور کہانی یاد آجاتی ہے جس میں سات اندھوں کو ہاتھی مل گیا اور جس اندھے نے ہاتھی کے جسم کے جس حصے پرہاتھ لگایا اس نے ہاتھی کے قد کاٹھ کا اسی سے اندازہ لگایا۔ جس کے ہاتھ میں سونڈ آگئی اس نے سمجھا کہ ہاتھی سانپ کی طرح ہے اور جس نے اس کے جسم کو ہاتھ لگایا وہ سمجھا کہ ہاتھی دیوار کی طرح کوئی سخت اور سپاٹ جانور ہے تو ہر ایک نے ہاتھی کے بارے میں اپنی رائے قائم کی جو مجموعی طور پر حقائق کے برخلاف تھی۔کرونا کے بارے میں بھی اسی قسم کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں اور جولوگ کررہے ہیں ان کی معلومات جس حد تک محدود ہیں وہ اسی حد تک اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔یہ خبر بھی زیر گردش ہے کہ اسرائیل میں کرونا کا کوئی مریض نہیں جو حقائق کے بر خلاف ہے۔ اس وقت اسرائیل میں چالیس سے زیادہ کرونا کے مریض ہیں اور اسرائیل نے پابندی لگا دی ہے کہ جو اسرائیل آئے وہ ۱۴ دن تک قرنطینہ میں رہے اور اگر اس کے پاس اس کے انتظامات نہیں تو اسے اسرائیل میں گھسنے نہیں دیا جائے گا۔میں اس پابندی کی تعریف کیئے بغیر نہیں رہ سکتا اور میرا دل کہتا ہے کہ کاش پاکستانی حکام بھی پہلے ہی مرحلے میں اس
قسم کی پابندی لگا دیتے تو ہم اس وقت بے فکری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ ایسا ہی ہے اور قدرتی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی وبا پھوٹ پڑے اور کسی بھی ملک کا شہری ایک ایسے ملک سے واپس آئے جہاں یہ وبا پھیلی ہوئی ہے تو اسے کم سے کم دو ہفتے ائیر پورٹ پر ہی رکنا پڑتا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان میں بھی اس قسم کا انتظام تھا اور جو لوگ سائوتھ افریقہ جاتے تھے ایک تو وہ پیلے بخار کا ٹیکہ لگا کر جاتے تھے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تھا تو واپسی پر اسے لازمی قرنطینہ میں رکھا جاتا تھا۔ میں نے خود سائوتھ افریقہ جانے سے پہلے یہ ٹیکہ لگوایا تھا جس کی معیاد دس سال ہوتی تھی۔یہ حکومت پاکستان کی کس بے ہوشی کے عالم میں ہوگیا کہ کرونا سے متاثر لوگ بلا روک ٹوک پورے پاکستان میں پھیل گئے اور جہاں ایک طرف کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا وہیں پوری پاکستانی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا۔اس کے بعد بھی پاکستان کو موقع ملا تھا کہ جب اس غلطی کا احساس ہوگیا تھا تو فوری طور پر اس کا تدارک کرنا چاہیئے تھا۔سب سے پہلے سارے پاکستان کے اخبارات کے پہلے صفحے پر اور تمام نیوز چینلز پر اشتہار چلانا چاہیئے تھا کہ جو لوگ فلاں فلاں بارڈر سے فلاں فلاں تاریخ کو پاکستان میں داخل ہوئے وہ فوری طور پر قریبی تھانے میں اپنا اندراج کرائیں اور چودہ دن کے لئے اپنے آپ کو قرنطینہ کی پابندیوں میں لے آئیں۔ اسی اشتہار میں عوام سے بھی اپیل کرنی چاہیئے تھی کہ اگر انہیں کوئی معلومات ہیں کہ ان کے محلے گلی یا بلڈنگ کا کوئی فرد یا افراد باہر سے واپس آئے ہیں تو وہ فوری قریبی تھانے کو اطلا ع کریں اور اس قسم کے لوگوں سے خود بھی دوری اختیار کریں اور اہل محلہ کو بھی اس کا مشورہ دیں۔ذرا سوچیئے کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ لوگ جو جوق درجوق ان تقریبات میں شریک ہوئے جہاں جیسے کسی نے عمرے کی خوشی میں پورے محلے کو اکھٹا کیا تھا تو کیا وہ ہوتے بلکہ اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دیتے اور پورے پورے محلے اس بیماری سے محفوظ رہتے۔ جو بات میں دیکھ رہا ہوں کہ بات چیت بہت ہے مگر عملی کام میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات اس موقع پر سیاست کرنا ہے جس میں ہمارے سندھ کے گورنر صاحب پیش پیش ہیں اور وہ تواتر کے ساتھ گورنر ہائوس میں حکومت سندھ کے متوازی اجلاس بلارہے ہیں۔ جب حکومت سندھ فیصلہ کرچکی کہ فی الحال مساجد میں محدود نمازیں ہونگی تو وہ علما سے بیان دلارہے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔وہ مشہور حکومتی چہرے جو روز ٹی وی پر بیٹھ کر ملک کے بس چند ہی دنوں میں جنت نظیر بن جانے کی خوشخبری سنا رہے ہوتے تھے اب کہیں نظر نہیں آرہے۔ حکمراں جماعت بڑی اور مقبول ترین ہونے کی دعویدار ہے مگر اس سنگین مرحلے میں اس کا عوام سے رابطہ نظر نہیں آرہا۔ حکمراں جماعت کی عوام سے دوری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس وقت وزیر اعظم پورے ملک میں گھر میں پھنسے عوام تک امدادی سامان کی ترسیل کے لئے دوسرے اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں جب کہ کسی بھی فعال سیاسی جماعت کے لئے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے اور اس کے کارکن جان پر کھیل کر ایسے مواقعوں پر ملک کی عوام کی اور اپنی پارٹی کی خدمت کرتے ہیں۔مجھے ابھی تک یاد ہے کہ کراچی میں طوفانی بارشوں کے بعد شہید ظہور الحسن بھوپالی کا فون آجاتا تھا اور میں بھاگ کر قریب نان بائی کو قورمے اور نان کا آرڈر دیتا تھا جس کے بعد ٹرک کا بندوبست ہوتا اور یہ امدادی قافلہ چل پڑتا۔ کچی آبادیوں میں اور گھٹنے گھٹنے پانی اور کیچڑ میں ظہور بھائی خود قورمہ اور روٹی بانٹ رہے ہوتے تھے اور علاقے کے پارٹی کے کارکن ان کا ساتھ دے رہے ہوتے تھے۔ یہ پاکستان میں سیاسی زمینی کارروائی کو کس کی نظر کھا گئی۔ عوام اور سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطہ کب ٹوٹ گیا کہ اب قیامت گزر رہی ہے مگر ملک کا وزیر اعظم بے بسی سے عوام کی امداد کے لئے رضاکار ڈھونڈ رہا ہے اور لوگ دن بہ دن موت کی وادی میں اترتے جارہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہر گلی کوچے میں اور خاص طور پر کچی آبادیوں اور متوسط طبقے کے علاقوں میں تحریک انصاف ہی نہیں ہر سیاسی جماعت کے کیمپ لگے ہوتے بالکل جیسے انتخابات میں ہوتے ہیں اور ان میں عام لوگوں کے لئے ضروریات زندگی کی چیزیں دستیاب ہوتیں۔ اگر یہ واقعی سیاسی جماعتیں ہیں تو ان کے کارکن ہر ایک کو جانتے اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتے۔ کسی کو کسی اور ادارے کی بیساکھیوں کی ضرورت پیش نہ آتی مگر افسوس اس موقع پر اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ اس ملک میں سیاسی اقدار کو بھی کوئی اور کرونا کھا گیا ہے اور ملک کی مقبول ترین بر سر اقتدار جماعت کو امدادی کام کے لئے کسی اور کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے۔خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔بات شروع ہوئی تھی کہ کرونا ہے کیا؟ آسمانی مخلوق یا زمینی سازش؟ میں سمجھتا ہوں کہ کرونا کی بیماری بنائی تو انسان نے مگر اب اس کا پھیلائو قدرت کے ہاتھ ہے اور انسان جو سمجھ رہا تھا کہ اب بس اس کی مرضی چلے گی شطرنج کے بادشاہ کی طرح شہ مات کا سامنا کررہا ہے۔ میرے اس خیال کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ کرونا کا وائرس زیادہ گرمی برداشت نہیں کرسکتا۔ انسان کتنی بھی ترقی کرجائے پوری دنیا کا موسم تبدیل نہیں کرسکتا۔ اس وقت حیرت انگیز طو ر پر پوری دنیا میں سردی کا دور دورہ ہے جو اس وائرس کی مستقل افزائش کا باعث بن رہا ہے۔خود کراچی کا موسم دیکھ لیں۔ کیا کبھی مارچ میں لوگوں کو لحاف نکالنے پڑے تھے اور اس قسم کے موسم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت تو ٹھیک ٹھاک گرمی شروع ہوجاتی تھی جس سے یہ وائرس محدود ہوسکتا تھا۔ شاید یہ کھیل انسان نے شروع کیا ہو مگر اب اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اب یہ تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ اصل میں سپر پاور کون ہے اور پھر اسی سے معافی تلافی کے لئے رجوح کرنا ہوگا ورنہ موجودہ تہذیب بھی ان دوسری لاتعداد تہذیبوں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی جن کا ذکراب صرف کتابوں میں باقی ہے۔پچھلے دنوں بڑی ہمت کرکے خان صاحب نے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر ملک کو کرونا سے بچانے کے لئے بات چیت کی کوشش تو کی مگر وہ بھی ان کی انا کی نذرہوگئی۔جب تک جذبہ خدمت سیاست پر غالب نہیں آئے گا ہم اسی طرح بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہیں گے۔ان حالات میں وزیر اعلیٰ سندھ امید کی ایک کرن ہیں اور وہ اور ان کی ٹیم صوبہ سندھ کے عوام کو بچانے کے لئے جو اقدامات کررہی ہے میرے پاس ان کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں۔