کرونا وائرس۔۔ کراچی میں وباؤں کی تاریخ
دنیا بھر میں دہشت پھیلانے والے کرونا وائرس نے ان دنوں صوبے سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں خوف طاری کیا ہوا ہے۔ شہری اس وبائی بیماری کے خوف میں مبتلا ہیں۔ سندھ حکومت نے صوبے میں وبائی امراض ایکٹ کا اطلاق کردیا ہے جس کے تحت اب تمام عوامی اجتماعات پر پابندی ہوگی،ایکٹ کے تحت کسی بھی شہر علاقے میں عوامی سرگرمیاں محدود ختم کی جاسکیں گی، حکومتی ٹیم کسی بھی فرد کا ٹیسٹ یا اسکریننگ کرسکے گی اور سندھ وبائی امراض ایکٹ کی خلاف ورزی قابل سزا جرم قرار دی گئی ہے اوراس ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایک ماہ کی سزا دی جائے گی۔ اس شہر کے لئے یہ وبا کوئی نئی آفت نہیں ہے اس سے پہلے اٹھاریں اور انیسویں صدی کے دوران کراچی اکثر طاعون اور ہیضے سمیت کئی وبائوں کا شکار رہا ہے۔ 1839 میں انگریزوں نے کراچی پر تسلط کے بعد موجودہ عیدگاہ میدان ایم اے جناح روڈ کے نزدیک عارضی رہائشی کیمپ قائم کیا تھا۔ برطانوی فوجیوں کو کراچی کی آب و ہوا راس نہیں آئی تھی جس کی وجہ سے وہ قے دست اور ہیضے کی مہلک بیماری کا شکار ہونے لگے تھے۔ 1846 میں ہیضے کی وبا نے ایسی شدت اختیار کی سات ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس آفت سے بچنے کے لئے کراچی کے باشندے شہر چھوڑ کر مضافاتی علاقوں اور کھلے میدانوں میں منتقل ہوگئے تھے۔ ہیضے کے مرض کا شکار ہوکر لقمہ اجل بننے والوں میں ملکہ برطانیہ کی 62 ویں رجمنٹ کے کیپٹن اور سر چارلس نیپئر کے ملٹری سیکریٹری کیپٹن جان موران کی بہن سارا بھی شامل ہیں ہلاک ہونے والے افراد کو مولوی مسافر خانہ بندرروڈ سے ملحقہ عیسائی قبرستان جہاں ان دنوں اقبال سینٹر واقع ہے اور صدر کے علاقے میں واقع کانوینٹ اسکول کی دیوار سے ملحقہ ایک چھوٹے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا معزز ملکہ برطانیہ کی 22 وین رجمنٹ کے ان سپاہیوں کی یاد میں 1849 میں ہولی ٹرینٹی چرچ میں ایک یادگار تعمیر کرائی گئی تھی جس پر یہ تحریر کندہ ہے کہ یہ سپاہی 1842.43 سندھ میں اپنے پہلے دورے کے دوران موسم کی ناسازگاری کی وجہ سے ہلاک
ہوگئے تھے اس تاریخی یادگار کے چاروں کونوں پر چار توپیں لگائی گئی تھیں اور ایک کتبہ نصب کیا گیا تھا یہ کتبہ اب بھی موجود ہے تاہم توپوں کی جگہ اب اس کے نشان باقی رہ گئے ہیں۔کراچی تاریخ کے آئینے میں نامی کتاب کے مصنف عثمان دموہی لکھتے ہیں 1846 میں وبائی امراض شدت اختیار کرگئے تھے اور خاص طور پر برطانوی فوجی سب سے زیادہ متاثر ہورہے تھے جس کی بنا پر ان کے علاج کے لئے عیدگاہ میدان کے نزدیک ایک عارضی ڈسپینسری قائم کی گئی تھی لیکن کچھ عرصے بعد برطانوی فوجیوں کی رہائش گاہ کو بندر روڈ سے مستقل طور پر صدر کے علاقے منتقل کردیا گیا اور علاج معالجے کے لئے قائم ڈسپینسری کوان کے یہاں سے منتقل ہونے کے بعد بھی نہ صرف قائم رکھا گیا بلکہ اس کو اسپتال کی شکل دی گئی۔1854 میں اس چھوٹے سے اسپتال کی جگہ ایک بڑا اسپتال تعمیر کیا گیا اور اسپتال کو کراچی کے عوام کے لئے وقف کردیا گیا۔ برطانوی راج میں تعمیر ہونے والے سول اسپتال کی عمارت کی تعمیر پر 6,878 روپے خرچہ ہوئے تھے۔ چونکہ اب یہ غیر فوجی اسپتال ہوچکا تھا لہذا اس کا نام سول اسپتال رکھا گیا۔ جس کی بنا پر سول اسپتال کا شمارکراچی کے اولین اسپتال میں ہوتا ہے ۔ ۔الیگزینڈر بیلی کے مطابق برطانوی راج کے دوران کراچی میں ملیریا، قے،دست، آشوب چشم، چیچک اور جلدی بیماریاں بھی عام تھیں۔ کراچی میں لازمی ٹیکہ ایکٹ نافذ کردیا گیا تھا (compulsory vaccination act 1879)چیچک پھیلنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ یہ بیماری دوسرے شہروں سے کراچی آنے والوں نے پھیلائی تھی۔شہرکی ڈسپینسریوں میں اوسط 100 مریض یومیہ علاج معالجے کے لئے آتے تھے۔ 1887.88کے دوران کراچی کے ایک مخیر پارسی ایڈلجی ڈنشا نے صدر، بندر روڈ اور لیاری کوارٹرز میں علاج معالجے کے لئے ڈسپنسریاں قائم کی تھیں۔ 1896 میں کراچی میں ایک بار پھرطاعون کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ طاعون کی وبا کلکتہ سے کراچی آنے والے بحری جہاز سے نکل کر شہر میں داخل ہونے والے چوہوں اور پسوئوں کی وجہ سے پھیلی تھی۔ بیماری پھیلنے کی بنیادی وجہ شہر میں جابجا گندگی اور غلاظت کے ڈھیر تھے۔ جہاز سے نکل کر بھاگنے والے چوہوں کو گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں پر کھانے کے لئے کافی خوراک مل گئی تھی اور اس طرح یہ چوہے آہستہ آہستہ لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگئے۔ شہرمیں طاعون کی وبا پھیلنے کے بعد صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ باپ بیٹے سے اور بھائی بھائی سے دور ہوگیا تھا، شام کو شہر سنسان ہوجاتا تھا بازار اور دکانیں بند ہوجاتی تھیں، شہری طاعون کی وبا اور فاقوں سے مرنے لگے تھے سو سے سوا سو اموات یومیہ ہورہی تھیں۔ مرنے والے شخص کے گھر کا سامان جلادیا جاتا اورگھروں کوجراثیم سے پاک کرنے کے لئے گندھک کا دھواں دیا جاتا تھا۔ لوگ وبائی بیماری سے اس درجہ خوفزدہ تھے کہ اپنے مردوں کو چھوڑ کر گھر سے بھاگ جاتے تھے۔ کراچی کی انتظامیہ نے شہر میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی اور داخلے کے باقاعدہ اجازت نامہ جاری کیا جاتا تھا۔ طبی ماہرین نے پسوئوں سے پھیلنے والی بیماری کوانتہائی خطرناک اور جان لیوا قرار دیا گیا تھا یہ جراثیم انسانی جسم کے مختلف حصوں پر حملہ کرتے تھے اور ان کا نشانہ بغل اور حساس اعضا ہوتے تھے ان جراثیم کے چمٹ جانے سے زخم پیدا ہوجاتا تھا،میں اس بیماری کو گلٹی دارزخم کہا جاتا تھا۔ برطانوی ڈاکٹروں اور دیسی طریقہ سے علاج کرنے والے ہندو اور مسلمانوں ڈاکٹروں نے اس مہلک بیماری پر قابو پانے کے لئے بعض اہم اقدامات کیئے تھے۔ شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں تھیں اور عمارتوں پر جراثیم کش اسپرے کی ایک مہم بھی چلائی گئی تھی کراچی کی انتظامیہ نے طاعون کی وبا سے نمٹنے کے لئے لیاری، رنچھوڑ لائن،رام باغ، سول لائن اور پرانے حاجی کیمپ کے مقام پر قرنطینہ کیمپ قائم کیئے گئے تھے اور طاعون سے متاثرہ افراد کو صحت مند افراد سے دور رکھا جاتا تھا شہریوں کو اس مہلک مرض سے آگہی کے لئے رسالہ تدابیر انسداد طاعون بھی جاری کیا گیا اور انسداد طاعون کمیٹی قائم کی تھی جس کا کام مریضوں کی دیکھ بھال کرنا تھا قرنطینہ کیمپ میں مریضوں کو لکڑی کے ٹبوں میں پانی گرم کرکے غسل دیا جاتا تھا اور انھیں ادویات دی جاتی تھی۔ کراچی کے گنجان آباد علاقے 1897 تک اس مہلک بیماری کی لپیٹ میں رہے۔ شہر میں پھیلنے والے طاعون کے نتیجے میں ہزاروں افراد کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ممتاز محقق سابق ڈائریکٹر قائداعظم اکادمی خواجہ رضی حیدر کے مطابق 1896 میں کراچی میں ہیضہ کی وبا پھیلنے کے نتیجے میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی والدہ اور پہلی اہلیہ انتقال کرگئیں تھیں آخر کار1900 میں طاعون کی مہلک بیماری پر قابو پالیا گیا اور اس وبائی بیماری کے بعد کراچی میں صحت و صفائی پرخصوصی توجہ دی گئی اور باقاعدہ سیوریج سسٹم کی بنیاد ڈالی گئی۔قیام پاکستان کے بعد بھی کراچی کو کئی بارمہلک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا 1957 میں بھی انفلوئینزا اور ڈائریا کی وبا نے شہریوں کوخوف میں مبتلا کردیا تھا جبکہ دو سال پہلے 2017میں پراسرار بیماری چکن گونیا نے
کراچی کا رخ کیا تھا، چکن گونیا ایک مچھر سے پیدا ہونے والی وائرل بیماری ہے، جو پہلی بار 1952 میں جنوبی تنزانیہ میں پھیلنے کے دوران ریکارڈ کی گئی تھی۔ کراچی میں تقریبا 20ہزار سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے تھے جبکہ ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔2019 میں کانگو وائرس نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ کانگووائرس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک کیڑے کی شکل میں بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور اونٹ کی جلد پر پایا جاتا ہے جو جانور کی کھال سے چپک کر خون چوستا رہتا ہے ۔انسانوں میں یہ بیماری کانگوکیڑے کے کاٹنے یا متاثرہ جانورکو ذبح کرتے ہوئے منتقل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ وائرس انسانی جسم میں داخل ہوکر تیزی سے سرایت کرجاتا ہے جس کے باعث متاثرہ شخص پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں بعد ازاں جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور مریض موت کے منہ میں چلاجاتا ہے گذشتہ سال کانگو وائرس کے نتیجے میں 16 اموات ہوئی تھیں جب کہ 41 مریضوں میں کانگو بخار کی تصدیق کی گئی تھی، جن میں سے بیش تر مریضوں کا تعلق کوئٹہ بلوچستان سے بتایا جاتا ہے۔ اب تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد کرونا وائرس نے پوری دنیا میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا ہے یہ موذی وبا چین سے شروع ہوکر اب پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے خونی پنجے گاڑچکی ہے تاہم اٹھارویں اور انیس ویں صدی کے مقابلے میں آج کی دنیا جدید اور ترقی یافتہ ہے لیکن کرونا وائرس سے ہونے والے اموات نے اس کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔