ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
اقبال کی شخصیت میں اس قدر تنوع اور گوناگوئی ہے کہ فارسی کے ایک شاعر کا یہ کہنا ان پر صادق آتا ہے کہ!
زفرق تابقدم ہو گی فی نگرم
کرشمہ دامن دل فی کشند کہ جالی اینجاست
اگر اقبال محض شاعر ہی ہوتے تو ان کے مضامین کی تازگی الفاظ و ترکیبات کی جدّت ، تشبہات کی لطافت اور کلام کا آہنگ ان کے بلند مرتبہ شاعر قرار دیئے جانے کیلئے کافی تھا لیکن اقبال بیک وقت شاعر بھی تھے اور مفکر بھی ، ، ایک حساس مسلمان بھی تھے اور ایک دور اندیش رہنما بھی ، مشرق کی روایات کے بھی حامل تھے اور مغرب کے افکار و خیالات کے بھی عالم ، ا س لیے ان کا کلام مسلمانوں کیلئے اور خاص طور پر برصغیر کیلئے مسلمانوں کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور موجودہ دور میں جب ہم سخت آزمائش اور ابتلا سے گزر رہے ہیں ، جب ہمارا ایمان و ایقان ، ہماری ملی وحدت ، معماری روایتی قدریں، یہاں تک کہ ہمارا وجود بھی خطرہ میں ہے ۔
مشرق کاایک نوجوان شاعر کھلے ہوئے آسمان کے نیچے ایک پُر خطر ، طوفان خیز ، لا دے کی طرح اُبلتے ہوئے جہان میں تنہا کھڑاتھا۔ اس کے چاروں طرف انیسویں صدی کے حادثات کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ بیسویں صدی کے رنگ ونسل اور قومیت کے تعصبات اور جنگ عظیم کا اسلحہ اور گول میز کانفرنس کی تجاویز بکھری پڑی تھیں۔ ایک طرف ترکوں کی خلافت ڈانواڈول تھی ،دوسری طرف مغرب کی سیاست کی تلواریں نیام سے باہر نکل آئی تھیں ۔ ان سب کے بیچ میں یہ شاعر کبھی اپنے مشرقی کی حالتوں کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی مغرب کے فلسفلہ ، تمدن اور تہذیب پر نظر ڈالتا تھا وہ دونوں سے غیر مطمئن تھا ۔ دونوں سے بیزارو خفا تھا ۔ وہ زندگی میں کسی اور ہی نسخہ کیمیا کی تلاش میں تھا ۔ آخر بڑی تلاش ، بڑی جستجو ، بڑی عرق زیدی ، سخت کوشی و خارا شگافی کے بعد ، تن من دھن کی بازی لگا کر اضطراب و استعجاب کی کٹھن وادیوں سے گڑ گڑا کر اسے تعطہ نوری دکھائی دیا ۔
اِس کی نگہ شوخ پر ہوتی ہے نمودار
ہرذرہ ، میں پوشیدہ ہے جو فوت اشراق
اقبال کو یہاں اکثر ایک روایتی ، پرانے عقیدے کا حامی ، قدامت وماضی کا عاشق ، جوش و جذبات سے بھرپور ، ترانے اور نعرے لگانے والے شاعر کی طرح پیش کیا گیا ہے یا پھر بڑے بڑے نقادوں نے اسے ایک فلسفی دَقیق اور مشکل پسند حکیم ودانا کی حیثیت سے روشناس کرایا ہے۔
اقبال کی یہ دونوں تصویریں یہ دونوں رُخ کچھ ایسے غلط بھی نہیں ، لیکن وہ محض ایک رُخ ہیں ۔ وہ روایت سے محبت بھی رکھتے تھے اور جذبے ، مقصد اور افادیت کے قائل بھی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھا اقبال کی زندگی اور شاعری کے بہت سے مقام اور بھی ہیں ۔ سب سے بڑا مقام تو یہی ہے کہ انہوں نے کہیں بھی قیام نہیں کیا ۔کسی مقام کو بھی منزل نہیں سمجھا ۔ وہ ذوق سفر ، آرزو مندی ، باصبری مسلسل جستجو اور پیہم عمل کے پیامی تھے ۔
ہر اِک مقام سے آگے ، مقام ہے تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
ایسے شاعر کو کسی ایک نظریہ کسی ایک روایت ، کسی ایک مسلک میں قید کر کے نہیں رکھا جاسکتا ۔ وہ اقبال جو آزاد مردہے ، پارہ صفت ہے ، سیمابی طبیعت کا مالک ہے ۔ آج ہمیں اپنے اردگرد کہیں نظر نہیں آتا ۔ اس کے برعکس ہماری نظریں ایک ساکت وجامد ، بے حس و حرکت تصویر سے روز ٹکراتی ہیں ، لیکن یہ اس کی اصلی اور مکمل تصویر نہیں ۔ اقبال شوخ طبع تھے ۔ انہیں سوال کرنے کی عادت تھی ، وہ کسی سے بھی خائف نہ ہوتے تھے ۔ ان میں ایک جرات رندانہ تھی ۔ اس لیے وہ نعرہ مستانہ لگا سکتے تھے۔ وہ تو قادر ِ مطلق سے بھی سوال کرنے سے نہیںجھجھکتے تھے ۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے ۔
یا اپنا گریبان چا ک یا دامن یزداں چاک
صرف سوال بھی سنیں وہ ایک ذہین ، پراعتماد اور شوخ نوجوان کی طرح یہ بھی کہہ سکتے تھے۔
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا ؟
اقبا ل ؒ کسی سے مطمئن نہیں وہ تو شرط رہبری یہی لگاتے تھے کہ حاضر وموجود سے مطمئن نہ ہو
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے
عام طور پر ہمارے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال مغربیت کے دُشمن اور مشرق کے عاشق ہیں ۔ اِ س خیال کا صرف یہ حصّہ توصیح درست ہے ۔ وہ بے شک مغرب کے باطن تک پہنچ اس کی روح سے غیر مطمئن ہیں ۔ ہر جگہ اقبال روایتی عابد وزاہد ، صوفی و ملا سے بیزار نظرآتے ہیں ۔ یہی نہیں مشرق کے طلبائ، اساتذہ ، شاعر ومصور سب سے خفا ہیں ۔ طالب علم سے انہیں گلہ ہے کہ وہ کتاب خواں ہیں ، مگر صاحب کتاب نہیں ۔
فکر نو ، جوصلہ وہ ہمت اور انسانیت کی محبت انہیں نئی دنیا کا محبوب شاعر بناتی ہے ،جدید شعراء اقبال سے بہت زیادہ متاثر و مسحور ہوتے ہیں ۔ جوشؔ، مجازؔ، مخدوم ؔ، فیض ؔ ، علی ؔسردار جعفری سب کے یہاں اقبال کی گونج سنائی دیتی ہے۔
نئے دور کیلئے اقبال کی صدا کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہو لیکن اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اقبال کو بت بنا کر پوجا جائے یا مقدس کتابوں کی طرح اُٹھا کر طاق میں سجاد یا جائے ۔ اقبال پر بھرپور نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ جن میں پورا اقبال نظر آئے ۔ اس کے ٹکڑے ، ٹکڑے نظر نہ آئیں۔
وہ اقبال جو تاریخ پر یقین رکھتا ہے یہ سایہ داری کا مخالف ہے مشرق کو احساس کمتری سے آزاد کرانا چاہتا ہے ۔ تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے ۔ فکر و تخیل کو آزا د ی کرانا چاہتا ہے ۔ رجائیت اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھانا چاہتا ہے ۔ سخت کوشی و خارہ شگافی کو زندگی کے اصول سمجھتا ہے ۔کائنات کی ہر طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنے کی جرات کرتا ہے اور عشق انسانیت سے سرشار ہو کر ایک نیا آہنگ بخشتا ہے ،جو مذہب میں اجہتاد کو ایک لازمی چیز سمجھتا ہے ۔
اقبا ل کی وسعت قلب و نظر نے انہیں ماضی کی ہر زندہ متحرک اور بلند ترشے کی قدر کرنا سکھایا تھا۔ ظلم وجبر کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو انہوں نے بلا تعصب خراج عقیدت پیش کیا چاہے وہ انقلاب روس ہو ، یہ وسعت قلب نظر بھی اس دور میں عام نہیں ، نئے دور میں اقبال کو سمجھنے کیلئے فارسی سے شناسائی لازمی ہے