کشمیری جوان بھارتی فوج کی واپسی کے خواہاں
بھارت نے گزشتہ برس 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی کے وادی میں مواصلات کا نظام معطل کرکے کرفیو نافذ کردیا تھا۔بھارتی فوج کے مظالم سے مقبوضہ وادی انگار وادی بن چکی ہے۔ بھارت فوجی دہشت گردی کے دوران روزانہ کشمیریوں کو شہید کررہا ہے۔ بھارتی ظالم فوج گلیوں اور سڑکوں پر گشت کر کے خوف وہراس پھیلاتی ہے۔ 235 روز سے جاری کرفیو اور لاک ڈاؤن سے مقبوضہ وادی میں زندگی آج بھی قید ہے۔ وادی میں صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے، کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مظالم کے باوجود کشمیری بھارت سے آزادی کے لیے پرعزم ہیں۔
مقبوضہ وادی میں ظالمانہ بھارتی اقدام کے تناظر میں نیویارک کے سکِڈمور کالج کی ایک یونیورسٹی کے محققین نے مقبوضہ کشمیر کے کالج اور یونیورسٹی کے مجموعی طور پر 600 طلبا و طالبات سے اکتوبر اور دسمبر 2019 کے درمیانی عرصے میں سروے کیا جس میں سے 90 فیصد جواب دہندہ نے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا۔ یہ سروے مقبوضہ کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں اس وقت کیا جب پوری مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کا لاک ڈائون کرچکی تھی۔ گزشتہ ہفتے واشنگٹن پوسٹ میںمسلم اکثریتی علاقہ کے80 فیصد رائے دہندگان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے آزادانہ ریفرنڈم کرانے کی حمایت کی تھی۔
اسکیڈمور کالج میں پولیٹیکل سائنس کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر یلینا بیبرمین نے کہا کہ 'سروے سے حاصل نتائج کی روشنی میں یہ سمجھنا بہتر ہوگا کہ کشمیری نوجوان خود مختاری کو ترجیح دیں گے'۔سروے ٹیم میں شامل ایک نوجوان سمیر احمد نے کہا کہ بھارت کے اندر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدگی نہیں اس لیے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں تنازع حل نہیں ہونے والا۔
انٹرویوز کے دوران دوتہائی سے زائد جواب دہندگان طلباء نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کیلئے امن مذاکرات ہی فائدہ مند اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ محققین نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پاک بھارت مذاکرات میں کشمیری عوام کے نمائندوں کی شرکت کے بارے میں سوال کیا تو جواب دہندہ کشمیری طلباء میں سے 83 فیصد نے اس کی حمایت کی جبکہ 64 فیصد رائے دہندگان نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر کا اہم فریق قرار دیتے ہوئے پاکستان کی مدد کو مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کیلئے ضروری قرار دیا۔ طلباء نے سوالات کے جوابات میں یہ بھی کہا کہ اگر مغربی ممالک کشمیری عوام کو اس تنازعہ کا ضروری فریق تسلیم کرلیں تو اس سے مسئلہ کشمیر جلد حل ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔
سروے میں جواب دہندگان نے رائے دی کہ تنازعہ کشمیر کے حل کا بہترین راستہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنیکا اختیار دینا ہی ہے جبکہ رائے دہندگان میں سے 91 فیصد طلباء انتہائی پرامید تھے کہ بالآخر کشمیری عوام کو استصواب رائے کاحق ملکر ہی رہے گا جبکہ 81 فیصد کا خیال تھا کہ کشمیری عوام کی رائے سے ہی تنازعہ کشمیر کا حل بہتر اور موثرانداز میں ہونا چاہیے۔ 92 فیصد رائے دہندگان کی بھاری اکثریت نے وادی پر ہندوستانی قبضے کیخلاف مزاحمت کیلئے غیر متشددانہ جمہوری طریقے اختیار کرنیکی حمایت کی جبکہ 64 فیصد طلباء کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ کا واحدبہترین حل جہاد ہی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونیوالے اس غیر جانبدرانہ سروے کے نتائج بھارت کی ہندو قوم پرست مودی حکومت کے دعووں کے برعکس ہیں کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دیکر مقبوضہ وادی کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کرنے سے کشمیر ایشو ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیگا۔سروے کے نتائج ہندوتوا نظریے کی حامل حکومت کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ وادی کو بھارت کا حصہ بنا کر دہائیوں پرانا مسئلہ حل ہوگیا۔کشمیریوں کی جانب سے سخت ردِ عمل کے پیشِ نظر بھارت نے کئی ہزار فوجی مزید مقبوضہ وادی میں اتاردیے ہیں۔ وہاں پر پہلے ہی آٹھ لاکھ سے زائد فوجی موجود ہیں۔
سروے بارے بین الاقوامی محققین کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلباء کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے کیونکہ سروے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی واضح اکثریت ہندوستان اور پاکستان کے مابین بامقصد دو طرفہ مذاکرات اوران مذاکرات کو دیگر ممالک اور عالمی قوتوں کی سفارتی حمایت کو اہمیت دیتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سروے میںواضح طور پر اجاگر ہوا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی افواج کے مکمل کریک ڈائون اور ذرائع مواصلات کی مستقل بندش کے باوجود بھی کشمیری نوجوانوں کی بڑی اکثریت مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے بارے میں پرامید ہے اور انہیں یقین ہے کہ کشمیری عوام کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی اور جلد یا بدیر مقبوضہ وادی کے لوگوں کا حق خودارادیت بہرصورت تسلیم کر لیا جائیگا۔
قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور ایک کروڑ سے زائد افراد دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید ہیں۔ وادی میں نام نہاد سرچ آپریشن اورپکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ وادی میں خوراک اور ادویات کی قلت بھی برقرار ہے۔ بھارت نے مظلوم کشمیریوں پر ظلم وبربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ہزاروں کشمیریوں سمیت مقبوضہ وادی کی سیاسی قیادت کو بھی جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔وادی میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات تاحال معطل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ کی طرف سے کشمیری رہنماوں پرکالے قوانین لاگوکرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔سابق وزرائے اعلیٰ مفتی محبوبہ ، عمرعبداللہ کے بعد اب ڈیڑھ درجن سے زائد اورکشمیری رہنماؤں پربھی پی ایس اے لاگوکیا گیا ہے۔
بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا نہ سکے بلکہ حیریت انگیز امر ہے کہ جوں جوں ان مظالم میں اضافہ ہوتا چلا گیا کشمیریوں کا جذبہ آزادی اتنا ہی پروان چڑھتا چلا گیا۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے ہر حربہ آزما لیا مگر اس میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ پورے مقبوضہ کشمیر میں جا بجا بے گناہ کشمیریوں کے قبرستان دکھائی دیتے ہیں مگر لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود کشمیری آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارتی فوجی بے گناہ کشمیریوں پر طاقت کا وحشیانہ استعمال اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے شہید نہ کرتی ہو۔ موجودہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ بنانے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے ہر حربہ آزما رہی ہے