سائنس دانوں کے مطابق کرونا وائرس کی شکل کرائون یعنی تاج کی سی ہے لیکن اس نے خوداپنی طاقت سے ثابت کیا ہے کہ وہ پوری دنیا پر راج کرنے آیا ہے۔اس کا خوف اتنا ہے کہ دنیا کی تمام تر آسائشیں، تمام راعنائیاں، تمام موسموں اور دلکش مناظرسے انسان خوف کھا رہا ہے۔ اقتدار کے بڑے ایوان ہوں یا بڑے شاہی محلات ہوں یا ان کی شاہ زادوں جیسی اولادیںکوئی بھی اس کے شکنجے سے بچ نہیں پا رہا ۔ ماضی پر نظر ڈورائیں تو دنیا پہلے انیسویں صدی میں طاعون یا پھر انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ لوگوں کو لقمہ اجل بنانے والا سپینش فلومیں مبتلا رہی پھر بیسوی صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے شروع میں یہ دھرتی سوائن فلو،سار ، ابیولا ، اور ڈینگی جیسی وبائوں کے زیر اثر رہی۔ ان سبھی وبائوں میں اتنی جرت نہیں تھی کہ پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی البتہ 2020 کے آغاز میں کروناوائرس نے کالے گورے ، مشرق مغرب ، شمال جنوب کی تمیز ختم کرتے ہوئے سبھی کو اپنا نشانہ بنا ڈالا ۔یہ ایک ایسا وائرس ہے جس کا کوئی دین ایمان نہیں ۔ یہ کسی قومی سرحد کو نہیں مانتا ، نہ سماج اور معاشرتی حدود کا تابع ہے،نہ اس کا کوئی ایجنڈ ہے اور نہ ہی معاشرتی اقدار ۔ یہ ان تمام قیود سے پوری قوت سے ٹکرا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں یہ دنیا میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا ۔ دنیا کی سپر پاور بھی اس کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہے ۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق امریکہ کرونا سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست آ گیاہے ۔ یہ وہی ملک ہے جسے ہر میدان میں فرسٹ آنے کی جستجو رہتی ہے مگر اس بار فرسٹ پوزیشن اسے تباہی کی دہانے پر لے آئی ۔ بہر کیف گزشتہ تمام وبائوں کے دور میں ابھی اتنی انسانی ترقی نہیں ہوئی تھی کہ ان وبائوں سے جلد نمٹا جاسکے مگر اس وقت انسان طب اور سائنس میں بے مثال کامیابیاں سمیٹ چکاہے ۔سیاروں کو مسخر کرنے اور سمندروں کی تہوں تک پہنچے والا انسان سائنسی ترقی، میڈیکل سائنسز کی ریسرچ اور بڑے بڑے ماہرین طب کے علوم سے مالا مال ہے ۔ ایسے میں قاتل کرونا نے دنیا کا نظام درہم برہم کرکے ثابت کر دیا ہے کہ قدرت کے آگے انسان کی اوقات دو ٹکے کی بھی نہیں۔ طبی ماہرین اور دیگر ماہرین نجوم کہتے ہیں کہ یہ وباء بھی پہلے کی وبائوں کی طرح ایک دن ختم ہو جائے گی ،اس کی کوئی ویکسین ایجاد ہو جائے گی ۔ایک دن کرونا بھی تاریخ بن جائے گا ۔ مگر انسانوں نے اپنی حالت نہ بدلی اور کائنات کو دیکھنے کا نظر یہ نہ بدلا تواگلی وباء اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہو گی کہ چرند پرند آدم ذات کا حشر دیکھ کر اپنے کانوں کو ہاتھ لگائیں گے مگر انسان بہت لاپروا اور کورچشم ہے اس نے طاعون ، سپیشن فلو ، سوائن فلو اور دیگر وبائوں سے سبق نہیں سیکھا بلکہ ہر آفت کے بعد آپس میں سنگ پھنسا لئے ۔ دوسری جنگ عظیم میں تین کروڑ اوراس کے بعد دوسری چھوٹی بڑی لڑائیوں میں تقریبا پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے ۔ثابت تو یہی ہوا انسان کرونا سے زیادہ خطرناک ہے ۔یہ دھرتی اس کے اندر باہر کی ایک ایک شے سب انسانی خطرناکی کے ڈسے ہوئے ہیں ۔قرنطینہ کے دور میںذرا کھڑکی سے باہر جھانکیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دھرتی کو کتنے برس بعد آرام ملا ہے ۔سر سبز درخت بے خوف لہلا رہے ہیں ، ہوا بھی پرسکون ہے، ماحولیاتی آلودگی سے اس کا دم نہیں گھٹ رہا ،پرندے خوشگوار فضا میںجشن منا رہے ہیں کہ شکاری یہاں خود شکار ہو گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹریفک کے بے ہنگم شور سے نجات کی خوشی میں سٹرکیں بھی آرام فرما رہی ہیں ۔جس قسم کی بے دریغ اور بغیر سوچے ترقی کے نام پہ انسانی مصروفیات رہی ہیں اس کا متحمل کرہ ارض ہمیشہ کے لئے نہیں ہو سکتا ۔ہم کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کی قناعت انسانی جسم کیلئے اچھی ہے ؟زراعت میں بھی زمین کو سانس لینے کا موقع دینا پڑتا ہے ۔ کرونا نے پوری دنیا کو وہ مہلت دی ہے جو ویسے نہیں مل رہی تھی ۔مگر یہ سب کب تک ؟وائرس تھم جانے کے بعد انسا ن پھر سب بھول بھال کر دھرتی کی ایسی تیسی کرنے میں لگ جائے گا ۔اگر کوئی سمجھ جائے کہ کرونا ہمیں سبق دے رہا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی بندوق ویکسین ہے، جہالت نہیں تعلیم ہے۔ بڑی قوت انفردیت نہیں اجماعیت ہے۔ کمزور پرظلم نہیں پیارہے۔سب انسان برابر ہے۔ سب ایک دوسرے سے جڑے ہیں ۔ ایک شخص کی تکلیف کا اثر سب پرہے۔ناقص غذا نہیں اچھی غذا کھائو۔ کرونا نے ہی یاد دہانی کروائی ہے کہ زندگی چھوٹی ہے اور زندگی کے لئے سب سے ضروری کیاہے ؟صرف نوکری کے لئے نہیں جینا ۔ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔ ہماری زمین بیمار ہے تو ہم بیمار ہے ۔میرے نزدیک کرونا وائرس تباہ کن نہیں اصلاح کن ہے۔یہ وقت بھی گزر جائے گا لیکن اگر ہم نے کرونا سے سبق نہ سکھا تو اگلا وائرس اٹیک اتنا بھیانک ہوگا کہ ہمیں سبق سیکھنے کا موقع بھی نہیں دے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024