1970ء کا دور پاکستان کی تاریخ میں اپنی کئی سیاہ کارروائیوں کی وجہ سے ایک داغ کی طرح نمایاں نظر آتا ہے۔ یوں تو جمہوری دور تھا مگر جمہور اس کے ثمرات سے کوسوں دور تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو خود ابھی آمریت کی شاباش اور مدد سے اوپر آتے تھے ایوب خان کو اپنا روحانی باپ کہتے تھے اور ایوب خان کی حمایت میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بھرپور مہم چلانے کے صلے میں ایوب خان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی سے ہم ذوالفقار علی بھٹو کی جمہور دوستی اور جمہوریت سے محبت کو سمجھ سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب جمہوری حکمران آمریت کا طرز اختیار کر لیتے ہیں تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ جمہوریت ایک مشترکہ لائحہ عمل کا نام ہے لیکن ہمارے ہاں کسی بھی جمہوری دور کو مکمل جمہوری دور نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ اب تک جتنے بھی منتخب وزیراعظم گزرے ہیں وہ تھوڑے عرصے کے بعد ایک ڈکٹیٹر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگر رویوں میں لچک نہ ہو تو جمہوریت اور آمریت میں فرق ختم ہو جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نام کے ساتھ بہت سی کامیابیاں جڑی ہیں مگر ان کے رویے میں لچک نہ ہونے سے وہ تنہا رہ گئے۔ اگرچہ عوام ان کے ساتھ تھی لیکن سیاست دانوں حتیٰ کہ اپنی پارٹی کے سینئر رہنمائوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے انہیں بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ آج کل بھی یہی عالم ہے۔ نواز شریف صاحب اگرچہ تیسری بار منتخب ہوئے اور خاص و عام کی یہی امید اور اندازہ تھا کہ اب وہ اپنا رات دن ایک کر دیں گے اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کریں گے۔ عوام کے مسائل کے لئے نکلیں گے لیکن انہوں نے اس پارلیمنٹ میں آنے کی بھی کم کم زحمت گوارا کی جس نے انہیں منتخب کیا تھا۔ اسی طرح ان کا زیادہ وقت بیرونی دوروں پر گزرا جو ایک طرف ملکی خزانے پر بوجھ ثابت ہوئے اور دوسری طرف اپنے مسائل سے دوری کی وجہ بنے۔ رفتہ رفتہ میاں صاحب کی عادات میں بھی عجیب سی بے نیازی نے جنم لیا اور انہوں نے خود کو عوام کا منتخب نمائندہ سمجھنے کی بجائے بادشاہت کی طرز پر سوچنا شروع کر دیا۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والے دوسری پارٹیوں کے سیاست دانوں کی بات کو اہمیت نہ دی اور آج یہ عالم ہے کہ دیگر تمام پارٹیاں ان کے خلاف متحد ہو چکی ہیں جس کی ایک مثال سینٹ کے الیکشن کے نتائج ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دانوں کے درمیان دوریوں کو ختم کیا جائے اور اس کے لئے حکمران جماعت کا فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کے پاس جائے اور ان کی رائے کا احترام کرے۔ مولانا فضل الرحمن نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ 1970ء کا دور نہ آنے دیا جائے اور سیاست دانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ 1970ء کے ساتھ ہماری تلخ یادوں میں ایک بنگلہ دیش کی یاد بھی ہے۔ اب ہم نے متحد رہنا ہے تو ہمیں بنیادی اصولوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔ صرف جیتنے کے لئے ہر حد پار کرنے والے سیاست دان کی پہچان کرنے کی ضرورت ہے۔ 70ء میں ہی تحریک ختم نبوت نے زور پکڑا۔ نبی پاک ﷺ سے ہماری محبت ڈھکی چھپی نہیں اور ہمارے ایمان میں ختم نبوت شامل ہے لیکن مذہب پر سیاست کرنا بہت بری بات ہے۔ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے آج تک مذہب پر صرف سیاست کی ہے، اس پر عمل نہیں کیا۔ خصوصاً نبی پاک ﷺ کے حوالے سے ہماری زیادہ تر جدوجہد ایک دوسرے پر فتوے لگانے اور جھٹلانے تک محدود رہی ہے۔ اگر ہم نبیﷺ کی محبت کو اپنے عمل میں شامل کر لیتے، ان کی سیرت اور تعلیمات کو حقیقی زندگی کا حصہ بنا لیتے تو آج ایک تہذیب یافتہ قوم بن چکے ہوتے۔ آج کے دور میں، جب کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے حقائق لوگوں تک بہت جلد پہنچ جاتے ہیں، ضرورت ہے کہ ہم منطقی بنیادوں پر آگے بڑھیں، سیاست دان اپنے نظریے اور عملی کاموں کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کریں نہ کہ انہیں مذہب کے نام پر تقسیم کر کے اپنا مقصد حاصل کریں۔ سنا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف نے بھی الیکشن میں اسی مقصد کے لئے ایسی شہرت رکھنے والے ایک میڈیا پرسن کی خدمات حاصل کی ہیں جو لڑائی جھگڑے کرانے میں معروف ہے۔ نہ جانے خان صاحب وزیراعظم بننے کے چکر میں اس ملک کے ساتھ کتنے کھلواڑ کریں گے؟ نئی نسل کو کیا کیا دھوکہ دیں گے؟ تمام پارٹیوں سے آنے والے کرپٹ ترین افراد کو پارٹی میں شامل کر کے تبدیلی کا نعرہ کیسے کامیاب بنائیں گے؟ اگر ان کی وجہ سے کامیابی آتی تو ان کی جماعتیں انہیں کبھی خود سے دور نہ کرتیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ نئے لوگوں کو آزماتے، تعلیم یافتہ نوجوان سامنے لے کر آتے۔ ان کے پاس ایک بیانیہ تو ہوتا کہ وہ واقعی تبدیلی لا رہے ہیں تو انہیں کامیابی ملنے کے بھرپور امکانات تھے۔ تاہم ایک بار پھر گزارش ہے کہ سیاست دان اس وقت آپسی جھگڑوں کو پس پشت ڈال کر جمہوریت کی بقا کے لئے سوچیں اور اصولوں پر سمجھوتے کرنے چھوڑ دیں۔ سب سے زیادہ قیمتی ملک کا وقار اور استحکام ہے۔ خدارا! اسے دائو پر نہ لگائیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024