قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے پر جے آئی ٹی میں اتفاق نہ ہو سکا: واجد ضیا
اسلام آباد( نامہ نگار ) شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے انکشاف کیا ہے کہ قطری شہزادے حمد بن جاسم نے اپنے پہلے دو خطوط کے متن اور دستخط کے علاوہ شریف خاندان کی سرمایہ کاری کی تصدیق کی ،ہم نے قطری شہزادے کو تمام متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کا کہا، حمد بن جاسم نے کہا کہ پاکستان نہیں آسکتا،اس نے تجویز دی کہ جے آئی ٹی ارکان دوحہ یا قطر آجائیں، حمد بن جاسم نے کہا کہ سوالنامہ بھجوا دیں۔ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے کے معاملے پرجے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہیں ہوا تھا۔ جمعرات کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی ۔ جس کیلئے نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے جس کے تھوڑی دیر بعد ہی عدالت نے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔سماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے واجد ضیا سے استفسار کیا کہ کیا آپ متعلقہ ریکارڈ لائے ہیں؟اس پر واجد ضیا نے جواب دیا جی لایا ہوں۔نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح کا آغاز کرتے ہوئے واجد ضیا سے قطری شہزادے سے خط وکتابت پرسوالات کیے۔واجد ضیا نے بتایا کہ حمد بن جاسم کو 13 مئی 2017 کو پہلا خط لکھا۔ خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس خط میں آپ نے حمد بن جاسم کوجے آئی ٹی میٹنگ میں آنے کا کہا؟ خط میں حمد بن جاسم سے سپریم کورٹ کوپہلے لکھے گئے دوخطوط کی تصدیق کا بھی کہا۔اس پر واجد ضیا نے جواب دیا کہ جی، میں نے ایسا کیا لیکن اس خط میں مزید ریکارڈ اور اضافی دستاویزات جمع کرانے کا بھی کہا تھا۔خواجہ حارث نے پوچھا کہ آپ نے حمد بن جاسم کے دونوں خطوط پڑھنے کے بعد متعلقہ ریکارڈ لانے کا کہا تھا؟ واجد ضیا نے کہا کہ نہیں، میں نے صرف خطوط کی بنیاد پر نہیں، تمام اضافی دستاویزات لانے کا کہا تھا۔ متعلقہ اضافی دستاویزات صرف خطوط کی بنیاد پرنہیں مانگی تھیں۔ مثلاً ورک شیٹ اور ٹرانزیکشن کی سپورٹنگ دستاویزات بھی مانگیں۔خواجہ حارث نے واجد ضیا سے پوچھا کہ مثلاً میں کیا کیا دستاویزات شامل ہیں؟ واجد ضیا نے کہا کہ کوئی بھی بینکنگ ریکارڈ اور خط کا کوئی بھی معاہدہ، جوٹرانزیکشن کوسپورٹ کرے۔نوازشریف کے وکیل نے پوچھا کہ کوئی اضافی دستاویزات آپ کے ذہن میں تھیں؟ واجد ضیا نے کہا کہ نہیں، یہ خصوصی طور پر نہیں، میرا مطلب تمام متعلقہ ریکارڈ سے متعلق تھا۔خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں مطلب سے غرض نہیں براہ راست سوال کے جواب چاہئیں۔اس دوران نیب کے پراسیکیوٹر سردار مظفر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کوجواب دینے دیا جائے، مکمل اور پورا جواب دینے دیں۔ اس موقع پر نواز شریف کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر میں تلخ کلامی ہوئی۔ واجد ضیا نے بتایا کہ حمد بن جاسم کی جانب سے خط کا جواب 24 مئی 2017 کو آیا۔ خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کوئی شک وشبہ تونہیں کہ یہ خط حمد بن جاسم نے ہی لکھا، اس خط کی روسے حمد بن جاسم نے اپنے پہلے دونوں خطوط کی تصدیق بھی کی۔ حمد بن جاسم کے خطوط کے بعد اب انہیں آنے کی ضرورت نہیں۔ 24 مئی کو ہی آپ نے حمد بن جا سم کو ایک اور خط لکھا، اس خط میں میں پہلے لکھے گئے خطوط کی تصدیق کی ۔اس پر واجد ضیا نے بتایاکہ جی میں نے خط لکھا تھا۔ اس خط میں گزشتہ خطوط کی تصدیق کی اورمتعلقہ دستاویزات لانے کا بھی کہا تھا۔واجد ضیا نے انکشاف کیا کہ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے کے معاملے پرجے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہ ہو سکا۔ یہ اہم معاملہ تھا۔ اتفاق نہ ہونے پرسپریم کورٹ کے پانامہ عملدرآمد بینچ کوخط لکھا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے فون پربتایا یہ اہم معاملہ ہے،جے آئی ٹی خود فیصلہ کرے۔ جے آئی ٹی خط میں یہ نہیں لکھا کہ اتفاق نہ ہونے پر سپریم کورٹ کو آگاہ کر رہے ہیں۔واجد ضیا نے بتایا حمد بن جاسم نے کہا تھا پاکستان نہیں آسکتا۔ حمد بن جاسم نے تجویز دی کہ جے آئی ٹی ارکان دوحہ یا قطر آ جائیں۔ حمد بن جاسم نے کہا کہ سوالنامہ بھجوا دیں، جے آئی ٹی ٹیم میں سوالنامہ پراتفاق نہ ہوسکا، پھر جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا کہ سوالنامہ ابھی نہیں بھیجا جائے گا۔