جمہوریت کی کوکھ سے کیا نکل رہا ہے؟
جمہوریت میںعوام کے منتخب نمائندے حکومت کی بہتری‘ فلاح اور معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ ایوانوں میں پہنچنے والے حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ ملک و قوم کیلئے دیانتداری سے کام کریں گے اور اپنی صلاحیتوں کو ملک و قوم کے لئے وقف کر دیں گے لیکن ہمارے ملک میں عجب چلن ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے اپنے اور اپنے خواص کیلئے باعث رحمت بنا دئیے ہیں اور عوام کی قسمت کو کڑواہٹ‘ تنگ دستی‘ غربت کی تلخی‘ لوٹ مار‘ رشوت‘ بدامنی‘ بے چینی‘ سر تا پا معاشرتی عدم تحفظ اور استحصال کی نرالی صورتوں نے گلے لگا لیا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کے پہاڑ آنے والی نسلوں کو بھی معذور اور اپاہج اور کنگال کر دیں گے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جمہوری حکمرانوں کے سر پر آرائے سلطنت ہونے کے بعد معیشت دگرگوں ہو جاتی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کا اندازہ سڑکوں اور پلوں سے نہیں لگایا جاتا بلکہ اس کی کرنسی کی قدرو قیمت ہی معیشت کا پتہ دیتی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ اور روپے کی مسلسل گرتی ہوئی صورتحال چیخ چیخ کر ہماری معاشی تباہ حالی بتا رہی ہے۔ مشرف جیسے قابل نفرت آمر کے دور میں امریکی ڈالر ساٹھ روپے میں ملتا تھا۔ زرداری دور حکومت میں ایک سو دس اور پھر اب ایک سو سترہ سے بھی بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے اور اب بھی مسلم لیگ نون کی حکومت چل رہی ہے۔
دنیا بھر میں جمہوری نظام حکومت سے پہلے تقریباً صرف ایک طرز حکومت رائج تھا کہ طاقت کے بل بوتے پر قابض بادشاہ اپنی من مانی سے حکومت کرتا اور عوام رعایا کہلاتی لیکن تاریخ میں کبھی کبھی عدل جہانگیری جیسے واقعات بھی جنم لیتے رہے اور یہ صرف ایک بادشاہ کے طرز عمل پر منحصر ہوتا تھا۔ رعایا کا سکھ دکھ بادشاہ کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا۔ شعور زندگانی آگے بڑھا اور حساس جانوں کے جدوجہد کی وجہ سے انسان کو انسان جاننے اور ماننے اور رعایا کا تصور ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور اس کامیابی کے حصول میں حساس انسانوں نے اپنے خون سے زمین کو سیرابی عطا کی۔ اس طرح عوام کے ووٹ سے حکومتیں بننے لگیں۔ جمہوریت کا تصور ایک اعلیٰ و ارفع معاشرہ کی تشکیل اور ایماندار نظام حکومت کو معرض وجود میں لانا ہے۔ جن ممالک میں جمہوریت صحیح انداز سے رائج ہے وہاں پر انسانی اقدار کے ساتھ قانون و انصاف کی عملداری اولین فریضہ گردانی اور مانی جاتی ہے۔ قانون کا احترام اور عوام کو سہولیات کی فراہمی ہدف اولین ہوتا ہے۔ سیاست میں آنے والا فرد معاشرہ‘ پارٹی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے کام کرتا ہے اور سب سے خوبصورت عمل یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں خاندانی شکنجہ میں نظر نہیں آتیں۔ افسوس ہمارے ہں شخصیت پرستی کے صدیوں پرانے تصور نے عجب صورت گر کا منظر پیدا کر دیا ہے۔ اذہان غلامی شخصیت پرستی سے آگے بڑھ کر خاندان پرستی میں لت پت ہوچکے ہیں۔ دولت کی چمک دمک اور اقتدار کی وحشیانہ طاقت سے سیاسی پارٹیاں ذاتی جاگیر اور جائیداد بن چکی ہیں۔ افسوس بہترین دماغ ماؤف ہو کر مجاوروں کی طرح سیاسی مزاروں پر حاضری ہی کو ملک و قوم کی خدمت گردان کر حال مست ہو چکے ہیں۔ مدح سرائی کے پہاڑ کھڑے کر کے اس کے دامن سے اپنے لئے مال و دولت اور جاہ دنیا کا حصول سکہ رائج الوقت قرار پا چکا ہے۔
سیاسی مافیا نے شاطرانہ انداز سے کام کر کے پورے معاشرہ کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے اور خوشامد پرستی آگے بڑھتے اور نوازے جانے کا واحد ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ ملک کے ادارے جو انصاف دینے اور انتظامی اختیارات کو خوف خدا کے مطابق ایمانداری سے استعمال کرنے کے پابند تھے‘ سیاست زدگی اور نااہلیت کے سمندروں میں غوطہ زن ہیں۔ بددیانت افراد ملک کے سرسبز چشموں کو بے آب کر رہے ہیں۔ بددیانت‘ زر پرست سیاستدانوں اور سرکاری عمال کا اتحاد ملک کے پاک دامن وجود کو تار تارکر رہاہے۔ زر اندوزی کا ہر انداز حکم امروز کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ معاشرہ بددیانتی کے گہرے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ہر سو لوٹ مار کے لگے بازاروں نے عوام کو حیران و پریشان کر رکھا ہے۔ ایسی صورتحال میں عوام بے حال اور بدمست طبقہ مالدار بنتا جا رہا ہے۔
شخصی آمریت اور مارشل لاء کا دور معاشرتی اور معاشی ابتری اور بدحالی کا یقیناً سبب بنتا ہے‘ لیکن زمانہ جمہوریت میں اگر جمہوری حکمران کرپشن کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ دیں۔ ذہن کو ماؤف کرنے اور لرزہ طاری کر دینے والی لوٹ مار کی کہانیاں سننے کو ملیں تو اس سے عام آدم اس رائج جمہوری فلسفہ سے نفرت کا حق رکھتا ہے۔ اس رائج جمہوری نظام میں چند خاندان دولت کی اوج ثریا پر پہنچ چکے ہیں۔ وطن عزیز میں سیاست ایک نفع بخش صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ ماضی قریب میں کتنے ہی خاندان سیاسی اقتدار کے ذریعے سے خزانۂ قارون کے کنجی بردار بن چکے ہیں۔ سیاسی اقتدار مال و دولت کے بے تحاشا حصول کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک ایک خاندان کے کئی کئی افراد پارلیمنٹ میں براجمان ہیں۔ نظام جمہوریت کو زر اور دھونس کے ذریعہ سے پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ یہ لوگ خدمت کے جذبے سے نہیں بلکہ دولت کی دیوی کو قابو کرنے کیلئے راستہ بناتے ہیں۔ سیاسی اقربا پروری کی انتہا ہو چکی ہے اور پارلیمنٹ میں بیٹھے افراد صرف اپنے ہی خون اور پیاروں کو اقتدار کی راہداریوں میں پہنچانا اپنا مشن سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ خدمت نہیں بلکہ ہوس زر و جاہ ہے۔ اس ہوس کا نظارہ اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر بھیجے گئے نمائندوں سے بخوبی نظر آ سکتا ہے۔ تقریباً ہر مخصوص نشست پر براجمان چہرے کے پیچھے خاندانی خون یا زر کی ان گنت لہریں نظر آئیں گی۔ کم کم ہی میرٹ پر افراد آگے لائے گئے ہوں گے۔
ہماری پارلیمنٹ ایسی پارلیمنٹ جو صرف بڑے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی نظر آتی ہے۔ سرکاری ہسپتال اور سرکاری تعلیمی اداروں کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ سکولوں میں مہنگی تعلیم اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں مہنگا علاج عوامی بدحالی کا بڑا ثبوت ہے۔ اگر حکمرانوں نے ہسپتال کا نظام ٹھیک کر دیا ہے تو پھر اپنا علاج بیرون ملک کیوں کرواتے ہیں۔ حکمرانوں کا علاج اور تعلیم بیرون ملک مکمل ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اس روز شروع ہو گی کہ جب پارلیمنٹ یہ قانون پاس کرے کہ اراکین پارلیمنٹ اور بیوروکریسی اپنا علاج بیرون ملک نہیں کرائیں گے اور انکے بچے بھی ان کے آبائی حلقوں میں سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہوا کریں گے۔ یہ صرف آغاز ہو گا لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ بادسموم کے رسیا باد صبا کو راستہ نہیں دیں گے اور صرف بقول شاعر یہ کہا جا سکتا ہے
فقط اپنے لئے جیتے ہیں
فقط اپنوں کو لٹاتے ہیں
اب تو اس جمہوری نظام پر طاقتور بننے والوں نے اپنی آئندہ نسلوں کو ہم پر حکمرانی کیلئے تیارکر لیا ہے۔ دلفریب نعروں اور بوسیدہ تاویلوں کے ساتھ مفاد یافتہ طبقوں کے نقارچی نعرہ زن ہو کر ہماری نسلوں کی غلامی کو طوالت دینے کی مذموم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں جمہور بغاوت کرتے ہوئے انکے نقاب الٹ دے اور غلامیٔ زر اور غلامی نسل سے انکاری ہو جائے۔