باطل ہی جُھکتا ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں وہ کل نہیں ہونگے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
نظامِ کائنات میں شروع ہی سے حق وباطل کا مقابلہ چلا آرہا ہے کہاں تین سو تیرا قلیل سازو سامان کے ساتھ کہاں ایک ہزار کئی گنا بہتر ہتھیاروں کے ساتھ لیکن فتح اللّٰہ کے شیروں کے مقدر لکھ دی گئی تھی۔ تعداد کی بدگمانی نے کئی فرعون پیدا کئے لیکن آخر کار اُنہیں حق کے سامنے سجدہ ریز ہونا پڑا۔ اِسی قسم کا منظر کل اچانک پاکستانی قوم کو بھی دیکھنے اور سننے کو ملا جب ہمارے وطنِ عزیز کے سب سے بڑے آئینی منصبدار اُس مُنصفِ اعظم کے در پر دستک دینے پر مجبور نظر آئے جو چند دن پہلے تک نہ صرف اپنے چیلے چیٹوں کے ذریعے منصفیں مملکت کیلئے اس ملک کی زمین تنگ کرنے کی گیدڑ بھبھکیاںدے رہے تھے۔
ہمارے دیس کے عوام کیونکہ اِن حکمرانوں کے کارناموں کی وجہ سے علم کی اُس معراج تک نہ پہنچ پائے کہ ان کی آئین شکنیوں پر اپنے حکمرانوں کی بازپرس کر سکیںجب اس ملک کا وزیر اعظم ببانگ دہل یہ کہتا پھرے میرے دل کا وزیر اعظم آج بھی وہی ہے جسے اس ملک کی عدالت عظمیٰ نے قوم سے جھوٹ بولنے اور حقائق چھپانے کیوجہ سے نااہل قرار دیا دوسرے معنوں میں وہ یہ کہہ کر نہ صرف آئین کا مذاق اُڑا رہے تھے جسکے تحت وہ خود اس منصب سے منسلک سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے ایوان عدل کی بے توقیری کرکے شاید قوم کے مجرموں کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اور مسلسل کر رہے ہیں حتیٰ کہ آئین شکنی کی یہ کہہ کر انتہا کردی تھی کہ اس فیصلے کو کوڑے دان میں پھینک دیں اصل فیصلہ تو عوامی عدالت کرے گی۔
لیکن قدرت کا دستور نرالا ہے جو ہر اُس متکبر شخص کو حق کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے جو اقتدار کے نشے میں اپنے اوسان کھو بیٹھتا ہے۔ مجھے آج حیرانی ہو رہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اپنے 30سالہ دورِ اقتدار میں کبھی نظام عدل کی خامیاں یا اِسکی ضروریات کا خیال نہیں آیا جو آج اپنے اقتدار کے بقیہ دو ماہ کے دوران آیا۔ وجہ اُسکی میرے نزدیک یہ ہے کہ آج کے دور میں ہمارے ایوانِ عدل میں بیٹھے ہوئے انتہائی زیرک، دور اندیش منصف دانوں نے اُن مسائل جنمیں تعلیم ،فوری اور سستا انصاف، صحت، روزگار، رہائش، ملکی قرضوں میں بے پناہ اضافہ، ملک کے پالیسی سازوں میں تقریباََ 34ہزار لوگوں کو دوسرے ممالک سے حلفِ وفاداری کو زیر سماعت لاکر اس ملک کے 22کروڑ لوگوں کو اُمید کی کرن دکھائی ہے جسے ہمارے حکمرانوں نے نہ صرف اپنی ذاتی دولت میں بے پناہ اضافہ کا ذریعہ بنایا ہوا تھا بلکہ اس ملک کے عوام کی ان ضروریات کو قربان کرکے اپنے عزیزواقارب کو نوازنے کا زینہ بھی۔
یہ ہمارے ملک کے منصف دانوں کا بڑاپن ہے کہ اُنہوں نے اس ملک کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید کی طرح اس بنا پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملنے سے انکار نہیں کیا کہ میرے پاس حکومت کے اور حکومت کے خلاف مقدمات سماعت کیلئے آتے ہیں اس لئے معذرت خواہ ہوں۔ اُمید ہے شاہد خاقان عباسی اپنے آپ کو اس ملک کے عوام اور آئین کی حرمت کا پاس کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کہے گئے اپنے الفاظ پر بر ملا ندامت کا اظہار کرینگے اور ہمیشہ آئین اور قانون کی بالا دستی کیلئے کام کریں گے کیونکہ جو اُنکے دل کے وزیراعظم ہیں اُن کا توکل تک بقول انکے کوئی نظریہ ہی نہیں تھا جو اب نظریاتی بنے ہیں وہ بھی اُنکے جنکے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں جو اس ملک کی اساس اور اس ملک کے محافظوں کی کھلم کھلا مخالفت پر مبنی ہیں یہاں میں کلبھوشن کے کیس کا حوالہ دیئے بغیر نہیںرہ سکتا کیا حکمران جماعت کا کوئی ہمدرد یہ ثابت کر سکتا ہے کہ سابقہ وزیراعظم کے منہ سے کبھی یہ نام ایک بار بھی نکلا ہے جو میرے خیال میں ان کے نظریہ کے عین مطابق ہے۔ یہ ملک اللّٰہ کی ایک خاص عنایت ہے جو انشاء اللّٰہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا اس کے بدخواہ یوں ہی خوار ہوتے رہیں گے۔
آخر میں چیف جسٹس پاکستان سے گزارش کروں گاکہ قوم کو اس ملاقات میں زیر بحث لائے گئے تمام امور کے متعلق بتایا جائے تاکہ عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔