محبتوں کا اک نگر بسانا چاہئیے
سرنگا پٹم‘ بکسر اور پلاسی ہی میں آزادی کی جنگ نہیں لڑی گئی‘ حیدرآباد کے نواح میں بھی ہوشو شیدی نے برٹش سامراج کو للکا را تھا اور اس کا رزمیہ نعرہ’’ مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘‘ مزاحمتی جدوجہد کا سرنامہ قرار پاسکتا ہے ٹیپوسلطان‘ شاہ عالم اور سراج الدولہ سے ان کے ملازموں نے غداری کی تھی جبکہ سندھ میں انگریزوں کے آلہ کار اور غدار صوبدار نے اپنے ملازم سے حرف انکار سنا تھا اہل سندھ ویسے بھی اپنے غداروں اور محسنوں کو جلد فراموش کردیتے ہیں۔ بحالی جمہوریت کی تحریک ہو یا اینٹی ون یونٹ موومنٹ کا مورچہ‘ سورہیہ بادشاہ کو سزائے موت کا حکم سنانے والے رچرڈسن کے 2 معاون ججوں میں سے ایک تو سندھ کاہی باشندہ تھا ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے ’’ جنب گذاریم جن سیں‘‘ میں وہ فہرست پڑھی ہے جنہوں نے ون یونٹ کی حمایت میں قرارداد منظور کی تھی اور اس سے بھی قبل 42ء میں سندھ اسمبلی نے بند کمرے کے اجلاس میں بدنام زمانہ حر ایکٹ منظور کیا تھا جس کے بعد اچھڑوتھر‘ تھر ‘نارا اور حیدرآباد میں جگہ جگہ پھانسی گھاٹ لگاکر سندھ کے سپوتوں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل ہوا تھا عبد الجبار عابد لغاری کی جدو جہد آزادی میں سندھ کا کردار‘ کامریڈ میر محمد تالپور کی کارا منہ‘ موچارا مانھو اور سائیں عطا محمد بھنبھرو کا ایک میگزین کو دیا گیا انٹرویو پڑھ لیا جائے تو بہت سے چہرے بے نقاب ہوجاتے ہیں وہ جن پر کئی خول اس لئے چڑھائے گئے کہ حقائق سامنے نہ آسکیں۔
ویسے جن کو سامنے آنا چاہئے تھا وہ گمنام ہی رہے۔ ریاست خیرپور کے فرماںرواں میر علی مراد تالپور کی طرح جو خود کو فقیر علی مراد لکھتے تھے ا ور کبھی اپنی ’’صاحبی‘‘ پر فخر نہ کیا اسی طرح کراچی کی پہلی پہیہ جام ہڑتال کے ہیرو جو تاریخ کے صفحات پر گمنام ہی رہے۔ یہ فروری مہینے کی 22 تاریخ تھی اور سنہ1946ء جب کراچی پورٹ پر لنگر انداز جہاز’’ہندوستان‘‘ پر مقامی جوانوں نے قبضہ کرلیا۔ باغیوں پر گولی چلائی گئی کئی شہید اور کتنے ہی زخمی ہوئے اس زمانے کے مختصر سے کراچی میں چرچا ہوا تو کے پی ٹی بلڈنگ سے نیپیئر مول تک لوگوں کاانبوہ جمع ہوگیا اور زخمی جوانوں کو اس وقت کے کوئنز روڈ اور آج کے مولوی تمیز الدین خان روڈ سے انگریز اسپتال لے جانے لگے تو شہریوں نے راستے مسدود کردیئے‘ پتھر پھینکے تو فوجی دستے نے گولی چلادی بغاوت کرنے والوں نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے اگلے روز یعنی 23 فروری کو کراچی میں پہیہ جام ہڑتال رہی اس تاریخی واقعے کو پی ایس دت نے Mutiny of innocents معصوموں کی بغاوت کا نام دیا تھا‘3 روز تک بندرگاہ مفلوج رہی پھر مسلم لیگ اور کانگریس کی قیادت نے یہ احتجاج ختم کرایا کہ انگریز حکام نے ان سے درخواست کی تھی کراچی کے قلب میں ایمپریس مارکیٹ بھی جس جگہ تعمیر ہوئی ہے وہاں برٹش ایمپائر کے سندھی باغیوں کو تو پوں کے منہ پر باندھ کر گولے داغے گئے تھے۔ نائوں مل ہوت چند نے مخبری کی تھی وہی جس کے لئے پیر علی محمد راشدی نے کہا تھا کہ اگر نائوں مل نہ ہوتا تو سندھ کے ہندو گدھوں اور مسلمان گھوڑوں پر ہی سوار ی کررہے ہوتے’’غلامی کے عوض ترقی‘‘ کیاخوبصورت بیانیہ ہے۔ یہی نائوں مل فروری1839ء کو سقوط کراچی کا بھی ذمہ دار ٹھہرا تھا ایسے بہت سے غدار تاریخ کے صفحات پر سیاہ کارناموں سمیت موجود ہیں اور کارنامے انجام دینے والے ہیرو بھی۔ ون یونٹ کی قرارداد کے مخالفین میں ہمیں چار نام ملتے ہیں غلام مصطفی بھرگڑی‘ عبد الحمید جتوئی‘ پیر الہی بخش اور خورشید احمد۔ ان میں سے آخر الذکر کون ہیں کچھ پتہ نہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق حیدرآباد سے تھا بہت سوں سے استفسار کیا جواب ندارد۔ کچھ نام سے آگاہ تھے مگر تفصیلات سے نابلد اور متعدد تو نام تک سے لاعلم نکلے۔
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
حرف آخر یہ کہ گذشتہ کالموں میں شہری‘ دیہی تفریق کے خاتمے پر جو گفتگو ہوئی اسے مختلف حلقوں نے سراہا اور آگے بڑھانے پر زور بھی دیا۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں آباد ہونے والے اب اس دھرتی کے مستقل باشندے ہیں یہ حقیقت ہم سب کو تسلیم کرنی ہوگی اور جو لوگ نفرت کی خلیج پاٹنے کی بجائے بڑھانے کے مدعی ہیں وہ نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کے بھی دشمن ہیں منفی سوچ کا خاتمہ نہ ہوا تو تضادات کی لہر صوبے کے مجموعی امن اور ترقی کو نقصان ہی پہنچائے گی۔ سندھ کے ایشوز پر آبادی کے دونوں طبقات یعنی شہری اور دیہی میں یکساں سوچ کا ہونا ضروری ہے مفاہمت کا یہ پہلو دونوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب کردے گا‘ بہار کے موسم میں جب شاخوں پر شگوفے کھلے ہیں محبتوں کا چمن بہت ضروری ہے جس کی خوشبو سے پورا سندھ مہک اٹھے۔
محبتوں کا اک نگر بسانا چا ہئیے