پورا پاکستان شور مچا رہا تھا، تمام سکیورٹی کے ادارے شور مچار رہے تھے کہ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کی آماجگاہیں ہیں جہاں سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو کنٹرول کیا جاتا ہے کیوں ان دشمن عناصر نے پورے ملک میں دہشتگردوں کی نرسیاں پھیلا رکھی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انکی کمین گاہیں یہاں موجود ہیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔ ان سب باتوں کے باوجود پنجاب حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی اور یہ کہہ رہی تھی کہ ہم یہ کام اپنی حکومت کے ذریعے ہی کر لیں گے، لیکن آج سانحہ اقبال ٹاﺅن کے بعد پنجاب بھر میں گرفتاریاں ہو رہی ہیں جو خوش آئند بات ہے۔ میں اپنے کئی کالموں میں اس بات کا ذکر کرتا آیا ہوں کہ پنجاب میں دہشتگردوں کےخلاف آپریشن اس لئے بھی فوری طور پر شروع کیا جانا چاہیے کہ دیگر صوبوں میں جاری آپریشنز کے نتیجے میں دہشتگرد اپنے لئے پنجاب کو ایک پناہ گاہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ کوئٹہ میں گرفتار ہونیوالے بہت سے دہشتگرد پنجاب سے اپنے مراکز سے رابطوں کا اعتراف کر چکے ہیں۔ کراچی سے فرار کرنےوالے بہت سے دہشتگردوں کی پنجاب میں پناہ لینے کی خبریں شائع ہوچکی ہیں۔ اسلام آباد اور اسکے مضافات سے پکڑے جانیوالے بہت سے دہشتگردوں کے رابطے اور ناتے پنجاب سمیت دیگر علاقوں کے دہشتگرد نیٹ ورکس سے ثابت ہوچکے ہیں۔ دہشتگردی کے مظاہر اور نیٹ ورکس پر نظر رکھنے والے بہت سے ماہرین پنجابی طالبان کی قوت اور فعالیت کو بیان کرچکے ہیں۔ پنجاب میں موجود تخریب کاروں اور دہشتگردوں کی تربیت کیلئے وہی علاقے استعمال ہوتے رہے ہیں، جہاں ان دنوں فوجی کارروائی جاری ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے صرف چند علاقوں کو دہشتگردوں سے آزاد کروانا کافی نہیں بلکہ اس کیلئے ملک کے ہر علاقے میں موجود دہشتگردوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ لیکن ہماری حکومتیں جب تک کوئی بڑا سانحہ نہ گزرے، سینکڑوں معصوم جانیں ضائع نہ ہوجائیں اور سینکڑوں لوگ بے گھر نہ ہو جائیں کوئی قدم نہیں اٹھاتیں۔ ایک عرصے سے وفاقی اور پنجاب حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ پنجاب میں بھی ویسا آپریشن لانچ کیا جائے، جیسا کراچی میں جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض افراد فقط کراچی کے آپریشن پر اعتراض کے پس منظر میں ایسی بات کرتے ہوں، لیکن سب کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شک اس لئے بھی درست نہیں کہ اس بات کے پیچھے بہت سے حقائق اور دلائل مضمر ہیں۔ اب جبکہ لاہور میں 27 مارچ 2016ءکو ایک اندوہناک سانحہ رونما ہوگیا ہے، یہ مطالبہ زیادہ زور وشور سے کیا جانے لگا ہے اور اب یہ مطالبہ زیادہ حقیقت پسندانہ قرار پانا چاہیے۔ لاہور گلشن اقبال پارک میں ہونیوالے خودکش حملے کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 74 افراد شہید ہوئے ہیں جبکہ 315 زخمی ہیں۔ یہ سانحہ اتنا بڑا اور خوفناک تھا کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی اور ہسپتالوں کی ایمرجنسی وارڈز میں جگہ کم پڑ گئی۔ کئی بڑے ہسپتالوں کے مردہ خانوں کی گنجائش ختم ہوگئی۔ رات گئے کئی ہسپتالوں نے مزید زخمی قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ شہریوں سے خون دینے کی اپیل کی گئی، تاکہ زخمیوں کی جانوں کو ممکنہ طور پر بچایا جاسکے۔ ملک کے بہت سے شہروں میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص بیشتر شہریوں نے سانحے کے بعد آنیوالی رات غم و اندوہ اور تشویش و اضطراب کے عالم میں جاگ کر گزاری۔ پنجاب حکومت نے اس سانحے پر تین روزہ اور سندھ حکومت نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل بھی لاہور اور لاہور کے علاوہ پنجاب کے اہم ترین علاقوں، شہروں، مراکز اور تنصیبات پر وحشت ناک اور نہایت نقصان رساں حملے ہوچکے ہیں۔ خود لاہور شہر میں پولیس اور حساس اداروں کے مراکز اور تھانوں تک کو بارہا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر اسی شہر میں حملہ ہوچکا ہے۔ داتا دربار پر بھی ایک خونریز حملہ کیا جاچکا ہے۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو سمیت کئی اہم مقامات پر حملے ہوچکے ہیں۔ ایک جامع مسجد میں حملے کے نتیجے میں اعلیٰ ترین فوجی افسر تک جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ کامرہ کا سانحہ فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پٹھان کوٹ کا حالیہ واقعہ جسکے نتیجے میں پاک بھارت مذاکراتی عمل منفی طور پر متاثر ہوا ہے، کیلئے مبینہ طور پر پنجاب کی سرزمین استعمال کی گئی ہے۔ ایسے بہت سے واقعات کے ڈانڈے پنجاب میں موجود دہشتگرد نیٹ ورکس سے جوڑے جاتے ہیں۔ پنجابی طالبان کا مرکز بلوچستان یا کوئی اور صوبہ نہیں پنجاب ہی ہے۔ لشکر جھنگوی کے اصل مراکز جنوبی پنجاب میں ہیں۔ ملک اسحاق کا مرکز جنوبی پنجاب کا آخری شہر رحیم یارخان تھا۔ جیش محمد کا مرکز جنوبی پنجاب ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب حکومت کو اپنے صوبے میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کیلئے خود دوسروں سے بڑھ چڑھ کر پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکی بنیادی وجہ تو پنجاب حکومت کی اپنی آئینی ذمہ داری ہے، لیکن دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر یہ الزام ہے کہ اسکے بعض دہشتگرد گروہوں سے رابطے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انکے دہشتگردوں کے ساتھ رابطے ہیں اور وہ انھیں اپنے سیاسی مقاصد کیلئے بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ اگرچہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں لیکن پنجاب میں دہشتگردی کے اتنے بڑے بڑے اور ہولناک سانحات رونما ہونے کے باوجود دہشتگرد نیٹ ورکس کیخلاف کسی موثر اور جامع آپریشن کا نظرنہ آنا بہرحال سوال انگیز ضرور ہے۔
جناب آرمی چیف صاحب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک لمبے انتظار اور اس قسم کے انتظار کے بعد ہی پنجاب میں آپریشن کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ یہی وہ واحد وجہ ہے جس کی وجہ سے سہولت کاروں کو شہہ ملتی ہے ہمیں ملک کی بقاءکی خاطر تیز رفتاری کے ساتھ فیصلے کرنے ہونگے اور اس معاملے میں کسی اثرو رسوخ خواہ وہ سیاسی ہو یا عسکری قبول نہیں کیا جائیگا۔ ہم اب بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ نے جس طرح سوات، فاٹا اور قبائلی علاقوں کو دشمنوں سے پاک کیا ہے اسی طرح پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں کو بھی اسی جذبے کیساتھ دہشتگرد عناصر سے پاک کر دینگے۔ درحقیقت کوئی حکمران یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی حکومت کو کسی بھی وجہ سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے اس لیے وہ بولڈ فیصلے کرنے سے کتراتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ان سیاستدانوں کے زیر سایہ ایسے عناصر اپنے مقاصد پورے کر رہے ہوتے ہیں جس کا عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ آج ان مفاد پرستوں نے ملک کی جڑوں کو حقیقی معنوں میں کمزور کرکے رکھ دیا ہے۔ پنجاب میں یقیناََ دیر کے بعد آپریشن شروع کیا گیا ہے لیکن اگر دیر آید درست آید کے مصداق اس میں بہتری لائی جانی چاہیے۔ کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں نائن الیون کے بعد ہی کثیر الجہات دہشتگردی نے جنم لیا ہے۔ جولائی 2007ءمیں لال مسجد آپریشن نے ردعمل میں تحریک طالبان پاکستان کو وجود اور اسکی دہشتگردی کی کارروائیوں کو فروغ دیا۔ اسکے باعث شمال میں قبائلی علاقہ جات سے جنوب میں کراچی تک بدامنی نے فروغ پایا۔ ستمبر 2013ءکے پہلے ہفتے میں کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے واقعات میں کسی حد تک کمی اس آپریشن کے مفید نتائج کا مظہر ہے۔گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے وطن عزیز میں دہشتگردی مقتدر طبقات کیلئے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی جانب سے محض مذمتی بیانات کا اجراءحسن کارکردگی کا مظہر نہیں ہو سکتا۔ 15 جون 2014ءمیں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ 16 دسمبر 2014ءکو پشاور آرمی سکول کا خوفناک ترین واقعہ ہوا۔ اسکے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔ لیکن ہر دوسرے تیسرے ماہ کے بعد ملک کے کسی حصے میں بڑا واقعہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً بڈھ بیر ہوائی مستقر پر حملہ اور باچاخان یونیورسٹی پر ہونیوالی دہشتگردی اور اب لاہور کا سانحہ عظیم۔ ہر دھماکے کے بعد صدر، وزیر اعظم ، آرمی چیف، وزرائے اعلیٰ اور گورنر صاحبان کی جانب سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی سر کوبی کیلئے تندہی سے سر گرم عمل ہونے کا دعویٰ کیا جاتا اور یقین دلایا جاتاہے کہ آئندہ دہشتگرد قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ زمینی حقائق اسکے بر عکس ہیں اور دہشتگردی کی آکاس بیل نے درودیوارِ وطن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ (جاری)