بہار کی آمد کے ساتھ ہی ذہن میں جانے کیا کیا خیالات اُمڈ آتے ہیں ۔وطن عزیز کی وہ باتیں ،وہ روایات وہ قصے کہانیاں جنکا تصور بھی اَب ہمارے پاس نہیں ۔یقین کیجئے ایک زمانہ تھا کہ ریل گاڑیاں ملک کے طول وعرض میں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے کا کام کرتی تھیں اور وقت پر ایسا ہوتا تھا ۔باربرداری کے لئے مال گاڑیاں موجود تھیں جو کاروباری تجارت پیشہ ور حضرات کی خدمات پر مامور تھیںملک کی ائیر لائن پی۔آئی۔اے باقاعدگی سے ملک کے اندر اور ملک سے باہر مسافروں کی آمدورفت کا خاطر خواہ انتظام کرتی تھی اور دنیا کی بہترین ائیر لاینزمیں شمار ہوتی تھی ۔یہی نہیں پی۔آئی۔اے نے متعدد ائیر لاینز کے عملہ کو تربیت دیکر اُنھیں دنیا میں متعارف کرایا ۔اِن میں چین کی قومی ائیر لائن،مشرق وسطی کی کئی ائیر لاینز شامل ہیں ۔ایک زمانہ بھی تھا جب کوریا کا ایک وفد پاکستان کے ترقیاتی مطالعہ کے لئے ہمارے ملک میں آیااور ہمارے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ کی ایک نقل ہمراہ لے گیا تھا کہ اپنے ترقیاتی پروگرام میں اُس سے رہنمائی حاصل کر سکیں یہی وہ زمانہ تھا جب امریکہ کے ہارورڈ گروپ نے قرار دیا تھا کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کی رفتار دنیا میں بشمول جاپان سب سے تیز ہے۔
مذہبی تہوار اجتماعات فرقہ واریت سے پاک صاف ہوتے تھے ملک میں بسنے والے مل جل کر منایا کرتے تھے آج اُنکا تصور تک باقی نہیں ہے۔ ربیع الاول کی تقریبات یا محرام الحرام کے جلوس اور مجالس سنی اور شیعہ مل جل کر منایا کرتے ۔ محرم کے جلوسوں پر سنی عقیدت مند سبیلیں لگاتے تھے اور اہل تشیع بھائیوں کے ساتھ مل کے عقیدت اور احترام سے اِنکااہتمام کرتے بسنت جیسے معصوم تہوار بھی عوام الناس کو خوشی اور انبساط کا موقعہ فراہم کیا کرتے تھے۔اُن دنوں گڈ گورنس کے ڈھول نہیں پیٹے جاتے تھے لیکن پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی ڈور کے ذریعہ گردن کٹ جانے کے واقعات رونما نہیں ہوتے تھے ۔ریڈیو پاکستان پر ایک ایک ہفتہ ہونے والی محافل موسیقی جن میں ملک کے چوٹی کے فنکار حصہ لیتے تھے موسیقی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے سامانِ کیف ونشاط فراہم کرتی تھیں۔ٹیلی ویژن کے بے شمار چینل موجود نہیں تھے لیکن پاکستان ٹیلی وژن سے تعلیم بالغان جیسے لافانی کھیل پیش کئے جاتے جن میں تفریح بھی ہوتی طنز بھی اور دیکھنے والوں کی تعلیم وتربیت کا غیر محسوس سا طریقہ موجود رہتا۔ موسیقی کے لازوال پروگرام باقاعدگی سے پیش کئے جاتے تھے جن میں ناموار کلاسیکی فنکاروں کے علاوہ نور جہاں ،مہدی حسن، غلام علی،اقبال بانو،فرید خانم بلقیس خانم وغیرہ اپنے اپنے فن کا مظاہرہ باقاعدگی سے کرتے تھے ۔خدا جانے ٹیلی ویژن کو اَب کیا ہو گیا ہے ۔نہ وہ ڈرامے رہے نہ ویسے پروگرام جی ہاں یہ وہی زمانہ تھا جس میں لوڈ شیڈنگ کا لفظ اَبھی سننے میں نہ آیا تھا اور سردی گرمی شہریوں کو بجلی کی ناہوت سے گزرنا نہ پڑتا تھا ۔نہروں اور دریائوں میں حسب ضرورت پانی دستیاب تھا ۔تعلیم کا نظام بھی تسلی بخش طریقے پر چلتا تھا اربوں روپے کے لیپ ٹاپ تقسیم کئے بنا ہی طلباء میں ڈاکٹر عبدالسلام جیسے نوبل لاریٹ بھی پیدا ہو جاتے تھے اساتذہ دیانت اور محنت سے فرض نبھاتے تھے ۔طلبا اور والدین بھی اپنے اپنے حصہ کا کام تندہی سے کرتے تھے اُنکے سامنے رول ماڈلز میں جناح ،اقبال،لیاقت اور عبد الرب نشتر جیسے لوگ تھے ۔معیشت بلند وبانگ دعوئوں کے بغیر چلتی تھی ۔نہ بے روزگاری کا سامنا تھا نہ ہوش رُبا گرانی کا ۔ضرورت کی سب چیزیں دستیاب اور عوام کی قوت خرید کے اندراندر۔ایک مستند اور ہنر مند انتظامیہ کے ذریعہ اِن کو ممکن بنایا جاتا تھا ۔حکومتیں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن عوام کی ضرورت سے آگاہ۔پھر حکومت اور عوام میں بے شمار فاصلہ بھی نہیں ہوتا تھا۔مذہب کے نام پر دہشت گردی کبھی سنی بھی نا تھی۔اپنی مرضی لوگوں پر ٹھونسنے کے لئے گولی ،بم اور بارود کا سہارا لینے کا راستہ اَبھی ریاست کے دشمنوں نے دریافت نہیں کیا تھا۔اگر اُن حالات اور اُس پاکستان کامقابلہ آج کے حالات اور آج کے پاکستان سے کیا جائے تو غالبًاکوئی قدر مشترک نظر نہ آئے گی اقبال نے کہا تھا۔
؎ تجھے آبا ء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی۔کہ گفتار وہ کردار تو ساکن وسیارہ اَب تو حالات اِسقدر بگڑ چکے کہ کہنے کی بات نہیں ملک طرح طرح کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔اُن مسائل کے حل کرنے کو جس قیادت کی ضرورت ہے وہ سردست نظر نہیں آتی لیکن اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ۔وہ شر میں سے خیر اور بُرائی میں سے بھلائی پیدا کرنے کی قدرت رکھتاہے ۔کیا عجب وہ ہم گنہگاروں کی سن لے اور ایک ایسی قیادت مہیا کر دے جو اِس بھیڑ کو ایک قوم بنا دے اور عزم راسخ عطا کرکے مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی عطا کر دے آمین۔
جو سب سے بڑا مسلہ ہمیں درپیش ہے وہ دہشت گردی کا ہے ۔سامناایسے لوگوں کا ہے جو خود قریب قریب اِن پڑھ ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں ملک میں شریعت اور اسلامی نظام کے نفاذ کا۔پھر اسلام کا جو تصور وہ لیتے پھرتے ہیں اُسکا اصل اسلام سے دور کا بھی واسط نہیں ۔یہ لوگ تعلیم بالخصوص تعلیم نسواں کے دشمن ہیں خیبر پختون خواہ اور فاٹا کے علاقے میں سینکڑوں سکول بم اور بارود سے اُڑ چکے ہیں اسلام کہتا ہے کہ علم کا حصول ہر مسلم مرد اور عورت پر فرض ہے۔نبی کریم ؐکی ایک حدیث ہے کہ علم حاصل کرو خواہ اسکے لئے تمھیں چین جانا پڑے۔ قتل وغارت کی بابت اسلام کا فرمان ہے کہ ایک بے گناہ شخص کا قتل ایسے ہی ہے گویا کل انسانیت کا قتل کر دیا جائے ۔یہ لوگ 50ہزار سے زائد پاکستانیوں کو قتل کر چکے جن میں5 ہزار سے زائد فوج افسر اور جوان شامل ہیں۔پھر فوجیوں کو شہید کر کے میتوں کی بے حرمتی انکا ایک اور ناقابل برداشت رویہ ہے ۔اِنہی حرکات کی بدولت دہشت گردوں کیخلاف نہ صرف فوج بلکہ پوری قوم میں شدید غم و غصے کے جذبات موجود ہیں۔اِن لوگوں سے مذاکرات کی بات تو چل رہی ہے حکومت نے اِس مقصد کیلئے ایک کمیٹی بھی قائم کر دی ہے لیکن اِن مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ماضی میں مذاکرات کے ذریعہ امن قائم کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکیں۔
ملک کو درپیش بڑا مسئلہ انرجی کی ناہوت کا ہے ۔ بجلی اور گیس دونوں مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہیں جسکی وجہ سے کارخانے بند پڑے ہیں۔بے روزگاری عام ہے ۔لوگ خودکشی کرنے تک پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ مائیں اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر۔حال ہی میں ایک درناک واقعہ نظر سے گزرا جس میں ایک ماں نے غربت اور بھوک سے تنگ آکر اپنے دو معصوم بچوں کو قتل کردیا۔خدا جانے اِس گناہ کا عذاب کس کی گردن پر ہوگا۔تاریخ اسلام میں تو دیکھا تھا کہ خلیفہ وقت نے کہا کہ اگر ایک کتا بھی فرات کے کنارے بھوک سے ہلاک ہو جائے تو خلیفہ وقت جواب دہ ہونگے ۔بدقسمتی سے ایسے واقعات کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ انرجی سے جڑاہوا مسئلہ ہماری معیشت کی ترقی کا ہے ۔ملک میں گیس اور بجلی دونوں کا فقدان ہے جسکی وجہ سے معاشی ترقی بہت دشوار ہو جاتی ہے۔حال ہی میں یورپی یونین کے ممالک نے چند دیگر ملکوں کے علاوہ پاکستان کو بھی اپنی منصوعات اِن ممالک کو بغیر درآمد ی ڈیوٹی ادا کئے برآمد کرنے کی اجازت دیدی تھی۔ کوششیں ایک عرصہ سے جاری تھیں لیکن یہ ممکن ن لیگ کی حکومت کے زمانہ میں ہوا ۔ گورنر پنجاب چوہدری سرورنے اِس سلسلہ میں خاص کوششیں کیں۔حکومت نے دعوے کئے کہ اِسکی وجہ سے معیشت کو بوسٹ ملے گا۔حکومتی دعوے بجا لیکن برآمدات کے آڈرز کی تکمیل کے لئے کارخانوں کو بجلی اور گیس مہیا ہو گی تبھی پروڈکشن ہو گی ۔سوال یہ ہے کہ حکومت نے کارخانوں کو بجلی اور گیس مہیا کرنے کے لئے ضروری اقدامات کر لئے اور آگے چل کے امکانات کیا ہیں ۔کبھی ایسا نہ ہو کہ انرجی کی ناہوت بلندو بانگ دعووں کو محض خوش فہمی تک گھٹا دے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38