مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ ایک گھنٹہ حالات کے تھپیڑے کھاتی اپنی پیاری دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے وقف ہوا ہے اور یکجہتی کا اظہار تمام روشنیاں گل کر کے کیا جانا ہے تو اس ایک گھنٹے میں اقتدار کے جگ مگ جگ مگ ایوانوں کے ساتھ ہم مستقل اندھیروں میں ڈوبے عوام کا بھی یکجہتی کا اظہار ہو جائے گا مگر ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ہم اپنی دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے مقررہ وقت ساڑھے آٹھ بجے اپنے گھر کی بتیاں اپنے ہاتھوں سے بجھانے کے آرزومند تھے مگر واپڈا نے یہ کریڈٹ بھی ہمارے حصے میں نہ آنے دیا اور ساڑھے آٹھ بجنے میں چند سیکنڈ کا فاصلہ باقی تھا کہ لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام پر مسلط رکھنے والی عادت کی مجبوری سے غالب آ کر پورے علاقے کو اندھیرے میں ڈبو دیا گیا اور خود بتیاں بجھا کر اپنی دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کی ہماری آرزو حسرتِ ناکام میں بدل گئی۔ پھر اس پر ہی اکتفاءنہیں کیا گیا۔ ہماری اس حسرتِ ناکام کو مزید رگڑے بھی لگائے گئے اگر ٹھیک ایک گھنٹہ بعد روشنی واپس آ جاتی تو ہم یہی تصور کر لیتے کہ دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے ہمارا بھی حصہ شامل ہو گیا ہے مگر ہم عوام کو تو یکجہتی کے اظہار والے ایک گھنٹہ کے بغیر مزید تین گھنٹے اندھیرے میں ڈبو کر یہ احساس دلایا گیا کہ آپ اپنے تئیں یکجہتی کے اظہار والی کوئی خوشی اپنے دل میں نہ سمائے بیٹھے رہیں، آپ نے اس مخصوص ایک گھنٹے کے دوران بھی روٹین کی لوڈ شیڈنگ ہی بھگتی ہے۔ البتہ اقتدار کے جگ مگ ایوانوں میں ایک گھنٹہ کے لئے سٹریٹ لائٹس اور بیرونی دروازوں کی لائٹیں بند کر کے انہیں دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا ضرور موقع فراہم کیا گیا ہے۔
معلوم نہیں، اس ایک گھنٹے میں ڈینگی وائرس رکھنے والے مچھروں اور ہوا کے مرغولوں کی طرح سرسراہٹ پیدا کرتی مکھیوں نے اقتدار کے ایوانوں کا منہ دیکھا تھا یا نہیں مگر مجھے یہ خوش فہمی ضرور ہے ورنہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گوجرانوالہ کے ایک پبلک جلسے میں بھلا یہ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی کہ ہم توانائی کے مسائل پر عوام کی طاقت سے قابو پائیں گے۔ ایک گھنٹے کے اندھیرے میں مچھروں مکھیوں کے حملے نے ہی انہیں عوام کو درپیش توانائی کے مسئلے کا احساس دلایا ہوگا ورنہ قصرِ شاہی ہم عوام کو درپیش مسائل کی لذت کو محسوس کرے۔ توبہ توبہ ۔ خدا خدا کیجئے۔
ارتھ آور تو پوری دنیا میں منایا گیا مگر اس کا چرچا ہمارے ملک کی دھرتی پر ہوا اور تشہیر ہمارے اقتدار کے ایوانوں کی ہوئی کیونکہ وہاں تو ایک ساعت کے لئے بھی بجلی غائب ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔دنیا نے تو ”ارتھ آور“ کو باقاعدہ فیسٹیول بنا دیا ہے۔ اگر اپنے گھر اور علاقے کو ایک مخصوص وقت کے لئے اندھیرے میں ڈبو کر بھی دل کی خوشی کا اہتمام کیا اور جشن منایا جا سکتا ہے تو کم از کم اس معاملے میں ہم دنیا کی خوش قسمت ترین قوم ہیں کیونکہ ہمہ وقت اندھیروں میں ڈوبے رہ کر ہمارے دل تو خوشیوں سے اتنے معمور ہو چکے ہیں کہ اب پھٹنے کی نوبت لا رہے ہیں۔ دنیا میں ہماری پہچان کیسے ہوئی ہے۔ ایس ایم ایس کے ذریعے زیر گردش ایک لطیفہ ملاحظہ فرمائے۔
استاد شاگرد سے: دنیا کے پہلے انسان کی نیشنلٹی بتائیے۔
شاگرد (بغیر کسی توقف کے) پاکستانی۔!
استاد: وہ کیسے۔؟
شاگرد: اس کے پاس نہ بجلی تھی، نہ گیس تھی نہ پانی تھا۔ پھر بھی وہ زندہ تھا، ہوا ناں پاکستانی۔!
تو چراغ گل کر کے ارتھ آور منانے والو۔ کان کھول کر سن لو۔ آپ سال میں صرف ایک بار صرف ایک گھنٹے کے لئے ارتھ آور منا کر اپنی خوشیوں کا اہتمام کرتے ہو۔ ہمارے حکمرانوں نے تو ہمیں ان ”خوشیوں“ میں ہمہ وقت ڈبو رکھا ہے اور ان خوشیوں کی اتنی انتہا کر دی ہے کہ ہم مرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس لئے ارتھ آور والی آپ کی خوشی تو ہمیں اپنے لئے طعنہ محسوس ہوتی ہے، پھر آپ کو ایک گھنٹے کے لئے اپنے چراغ گل کرکے ہمارا منہ چڑانے اور مذاق اڑانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے ہم تو اس دھرتی کے ساتھ ہی نہیں، دنیا والو۔ آپ کی سالانہ ایک گھنٹے کی خوشی کے ساتھ بھی ہمہ وقت یکجہتی کے اظہار میں مصروف رہتے ہیں اور یکجہتی کے اظہار کے لئے تحریر کی جانے والی یہ سطور بھی کینڈل لائیٹ میں لکھی جاتی ہیں اگر کسی میں ہمت اور جذبہ ہے تو ہمارا یہ اعزاز چھین کر دکھائے۔ کم از کم یہ میڈل تو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا کیونکہ ہم لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل جھیل کر اور اپنے روزگار، کاروبار ٹھپ ہونے، پانی کی نعمت سے محروم ہونے، اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور حبس و گھٹن سے پل پل لذت آشنا رہنے کی صورت میں اس میڈل کی فیوض و برکات سمیٹتے سمیٹتے بہت پختہ ہو چکے ہیں، آپ ایک گھنٹہ مناتے ہیں، ہم نے ساری زندگی اس خوشی کو شیئر کرنے کے لئے وقف کر دی ہے اور جہاں تک اپنی دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا معاملہ ہے ہم تو اس اظہار کے لئے ویسے ہی خاک میں مل چکے ہیں
رہینِ خاک تھا، آخر سپرد خاک ہوا
آپ براہ کرم ہمیں آسودہ خاک ہی رہنے دیں۔ ہمارا مردہ خراب نہ کریں!
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ہم اپنی دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے مقررہ وقت ساڑھے آٹھ بجے اپنے گھر کی بتیاں اپنے ہاتھوں سے بجھانے کے آرزومند تھے مگر واپڈا نے یہ کریڈٹ بھی ہمارے حصے میں نہ آنے دیا اور ساڑھے آٹھ بجنے میں چند سیکنڈ کا فاصلہ باقی تھا کہ لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام پر مسلط رکھنے والی عادت کی مجبوری سے غالب آ کر پورے علاقے کو اندھیرے میں ڈبو دیا گیا اور خود بتیاں بجھا کر اپنی دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کی ہماری آرزو حسرتِ ناکام میں بدل گئی۔ پھر اس پر ہی اکتفاءنہیں کیا گیا۔ ہماری اس حسرتِ ناکام کو مزید رگڑے بھی لگائے گئے اگر ٹھیک ایک گھنٹہ بعد روشنی واپس آ جاتی تو ہم یہی تصور کر لیتے کہ دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے ہمارا بھی حصہ شامل ہو گیا ہے مگر ہم عوام کو تو یکجہتی کے اظہار والے ایک گھنٹہ کے بغیر مزید تین گھنٹے اندھیرے میں ڈبو کر یہ احساس دلایا گیا کہ آپ اپنے تئیں یکجہتی کے اظہار والی کوئی خوشی اپنے دل میں نہ سمائے بیٹھے رہیں، آپ نے اس مخصوص ایک گھنٹے کے دوران بھی روٹین کی لوڈ شیڈنگ ہی بھگتی ہے۔ البتہ اقتدار کے جگ مگ ایوانوں میں ایک گھنٹہ کے لئے سٹریٹ لائٹس اور بیرونی دروازوں کی لائٹیں بند کر کے انہیں دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا ضرور موقع فراہم کیا گیا ہے۔
معلوم نہیں، اس ایک گھنٹے میں ڈینگی وائرس رکھنے والے مچھروں اور ہوا کے مرغولوں کی طرح سرسراہٹ پیدا کرتی مکھیوں نے اقتدار کے ایوانوں کا منہ دیکھا تھا یا نہیں مگر مجھے یہ خوش فہمی ضرور ہے ورنہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گوجرانوالہ کے ایک پبلک جلسے میں بھلا یہ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی کہ ہم توانائی کے مسائل پر عوام کی طاقت سے قابو پائیں گے۔ ایک گھنٹے کے اندھیرے میں مچھروں مکھیوں کے حملے نے ہی انہیں عوام کو درپیش توانائی کے مسئلے کا احساس دلایا ہوگا ورنہ قصرِ شاہی ہم عوام کو درپیش مسائل کی لذت کو محسوس کرے۔ توبہ توبہ ۔ خدا خدا کیجئے۔
ارتھ آور تو پوری دنیا میں منایا گیا مگر اس کا چرچا ہمارے ملک کی دھرتی پر ہوا اور تشہیر ہمارے اقتدار کے ایوانوں کی ہوئی کیونکہ وہاں تو ایک ساعت کے لئے بھی بجلی غائب ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔دنیا نے تو ”ارتھ آور“ کو باقاعدہ فیسٹیول بنا دیا ہے۔ اگر اپنے گھر اور علاقے کو ایک مخصوص وقت کے لئے اندھیرے میں ڈبو کر بھی دل کی خوشی کا اہتمام کیا اور جشن منایا جا سکتا ہے تو کم از کم اس معاملے میں ہم دنیا کی خوش قسمت ترین قوم ہیں کیونکہ ہمہ وقت اندھیروں میں ڈوبے رہ کر ہمارے دل تو خوشیوں سے اتنے معمور ہو چکے ہیں کہ اب پھٹنے کی نوبت لا رہے ہیں۔ دنیا میں ہماری پہچان کیسے ہوئی ہے۔ ایس ایم ایس کے ذریعے زیر گردش ایک لطیفہ ملاحظہ فرمائے۔
استاد شاگرد سے: دنیا کے پہلے انسان کی نیشنلٹی بتائیے۔
شاگرد (بغیر کسی توقف کے) پاکستانی۔!
استاد: وہ کیسے۔؟
شاگرد: اس کے پاس نہ بجلی تھی، نہ گیس تھی نہ پانی تھا۔ پھر بھی وہ زندہ تھا، ہوا ناں پاکستانی۔!
تو چراغ گل کر کے ارتھ آور منانے والو۔ کان کھول کر سن لو۔ آپ سال میں صرف ایک بار صرف ایک گھنٹے کے لئے ارتھ آور منا کر اپنی خوشیوں کا اہتمام کرتے ہو۔ ہمارے حکمرانوں نے تو ہمیں ان ”خوشیوں“ میں ہمہ وقت ڈبو رکھا ہے اور ان خوشیوں کی اتنی انتہا کر دی ہے کہ ہم مرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس لئے ارتھ آور والی آپ کی خوشی تو ہمیں اپنے لئے طعنہ محسوس ہوتی ہے، پھر آپ کو ایک گھنٹے کے لئے اپنے چراغ گل کرکے ہمارا منہ چڑانے اور مذاق اڑانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے ہم تو اس دھرتی کے ساتھ ہی نہیں، دنیا والو۔ آپ کی سالانہ ایک گھنٹے کی خوشی کے ساتھ بھی ہمہ وقت یکجہتی کے اظہار میں مصروف رہتے ہیں اور یکجہتی کے اظہار کے لئے تحریر کی جانے والی یہ سطور بھی کینڈل لائیٹ میں لکھی جاتی ہیں اگر کسی میں ہمت اور جذبہ ہے تو ہمارا یہ اعزاز چھین کر دکھائے۔ کم از کم یہ میڈل تو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا کیونکہ ہم لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل جھیل کر اور اپنے روزگار، کاروبار ٹھپ ہونے، پانی کی نعمت سے محروم ہونے، اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور حبس و گھٹن سے پل پل لذت آشنا رہنے کی صورت میں اس میڈل کی فیوض و برکات سمیٹتے سمیٹتے بہت پختہ ہو چکے ہیں، آپ ایک گھنٹہ مناتے ہیں، ہم نے ساری زندگی اس خوشی کو شیئر کرنے کے لئے وقف کر دی ہے اور جہاں تک اپنی دھرتی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا معاملہ ہے ہم تو اس اظہار کے لئے ویسے ہی خاک میں مل چکے ہیں
رہینِ خاک تھا، آخر سپرد خاک ہوا
آپ براہ کرم ہمیں آسودہ خاک ہی رہنے دیں۔ ہمارا مردہ خراب نہ کریں!