اشرف جاوید ایک خوبصورت شاعر ہیں۔ ظفر اقبال نے بھی ان کے نئے شعری مجموعے ”داغ چراغ ہوئے“ کو پڑھ کر خوشی، فخر اور اطمینان کا اظہار کیا۔ میں یہ کالم اشرف جاوید کی شاعری پر تحریر نہیں کر رہا لیکن ان کے ایک چونکا دینے والے شعر نے مجھے آج کے کالم کے لئے ایک موضوع دے دیا ہے۔ ان کا شعر ہے
خریداروں کی بولی اٹھ رہی تھی
یہ رخ بازار کا دیکھا کسی نے؟
ہم بازار میں اکثر ضروریات زندگی کی اشیا خریدنے جاتے ہیں لیکن اس رخ سے شاید ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم کوئی شے خریدتے ہیں یا خود اس شے کے بدل میں اپنی بولی لگوا رہے ہوتے ہیں۔ اس شعر نے تو ایک نئے پہلو سے زندگی کو دیکھنے کا مجھے شعور بخشا ہے اور مجھے واقعی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم سب جو اس گمان میں ہیں کہ ہم خریداری کے لئے بازار جاتے ہیں تو دراصل ہم خود بوٹی بوٹی ہو کر دکانداروں میں تقسیم ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی کبھی جو لوگ اپنے بچوں کو بیچنے کے لئے اعلانات اخبارات میں شائع کرواتے ہمیں نظر آتے ہیں کیا یہ ہمارے پورے معاشرے کی بے حسی کے منہ پر ایک زنّاٹے دار تھپڑ نہیں ہے۔ یہ جو اخبارات میں خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ ماں سے اپنے بچوں کے مسلسل فاقے برداشت نہ ہوئے اور اس نے خودکشی کر لی تو اس سے ہم تک کیا یہ پیغام نہیں پہنچتا کہ بازارِ حیات سے جب ایک مجبور ماں اپنی جیب میں کچھ نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کے پیٹ کے لئے روٹی نہیں خرید سکتی تو پھر وہ موت کی پناہ تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ سیالکوٹ کے محنت کش شاعر سبط علی صبا نے کہا تھا
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو
بچہ سردی کی شدت سے ٹھٹھر رہا ہو اور گھر میں مفلسی کے باعث ایندھن موجود نہ ہو تو بچے کی زندگی کے لئے ماں تختی جلا دینے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن مجبوری کا وہ عالم دیکھئے کہ وہ مائیں جنہیں بچے اپنی زندگی سے بھی عزیز تر ہوتے ہیں بچوں سمیت خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ خودکشی کی غیر معمولی اور آخری منزل کا رخ آدمی اس وقت کرتا ہے جب وہ زندگی کے بازار میں خود بِک کر بھی اپنے لئے کچھ خرید نہیں سکتا۔
بے روزگاری کی لعنت کیا ہے۔ یہی کہ ہم اپنی محنت، اپنی صلاحیتیں اپنی جسمانی قوت بیچنے کے لئے نکلتے ہیں لیکن اس کا کوئی خریدار ہمیں نہیں ملتا۔ اگر ہماری محنت، صلاحیتیں، جسم کا سارا زور کسی بازار میں بکتا ہی نہیں اور اس کا کوئی معاوضہ ہمیں ملتا ہی نہیں تو ہم اپنی زندگی کی ضرورتیں کس سرمائے سے پوری کریں گے اور اگر ہمیں اپنی محنت کا کوئی گاہک مل بھی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہمیں اپنی محنت بیچنے کے بعد جو کچھ مل پایا ہے اُس قلیل معاوضے سے ہم اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھا سکتے بھی ہیں یا نہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کے خریدار بھی ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کے ہاتھ بک بھی رہے ہیں لیکن ہماری بولی اتنی کم لگ رہی ہے، ہمیں معاوضہ اتنا کم مل رہا ہے کہ دکانداروں کے ہاتھ بک کر بھی ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ (جاری ہے)
خریداروں کی بولی اٹھ رہی تھی
یہ رخ بازار کا دیکھا کسی نے؟
ہم بازار میں اکثر ضروریات زندگی کی اشیا خریدنے جاتے ہیں لیکن اس رخ سے شاید ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم کوئی شے خریدتے ہیں یا خود اس شے کے بدل میں اپنی بولی لگوا رہے ہوتے ہیں۔ اس شعر نے تو ایک نئے پہلو سے زندگی کو دیکھنے کا مجھے شعور بخشا ہے اور مجھے واقعی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم سب جو اس گمان میں ہیں کہ ہم خریداری کے لئے بازار جاتے ہیں تو دراصل ہم خود بوٹی بوٹی ہو کر دکانداروں میں تقسیم ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی کبھی جو لوگ اپنے بچوں کو بیچنے کے لئے اعلانات اخبارات میں شائع کرواتے ہمیں نظر آتے ہیں کیا یہ ہمارے پورے معاشرے کی بے حسی کے منہ پر ایک زنّاٹے دار تھپڑ نہیں ہے۔ یہ جو اخبارات میں خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ ماں سے اپنے بچوں کے مسلسل فاقے برداشت نہ ہوئے اور اس نے خودکشی کر لی تو اس سے ہم تک کیا یہ پیغام نہیں پہنچتا کہ بازارِ حیات سے جب ایک مجبور ماں اپنی جیب میں کچھ نہ ہونے کے باعث اپنے بچوں کے پیٹ کے لئے روٹی نہیں خرید سکتی تو پھر وہ موت کی پناہ تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ سیالکوٹ کے محنت کش شاعر سبط علی صبا نے کہا تھا
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو
بچہ سردی کی شدت سے ٹھٹھر رہا ہو اور گھر میں مفلسی کے باعث ایندھن موجود نہ ہو تو بچے کی زندگی کے لئے ماں تختی جلا دینے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن مجبوری کا وہ عالم دیکھئے کہ وہ مائیں جنہیں بچے اپنی زندگی سے بھی عزیز تر ہوتے ہیں بچوں سمیت خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ خودکشی کی غیر معمولی اور آخری منزل کا رخ آدمی اس وقت کرتا ہے جب وہ زندگی کے بازار میں خود بِک کر بھی اپنے لئے کچھ خرید نہیں سکتا۔
بے روزگاری کی لعنت کیا ہے۔ یہی کہ ہم اپنی محنت، اپنی صلاحیتیں اپنی جسمانی قوت بیچنے کے لئے نکلتے ہیں لیکن اس کا کوئی خریدار ہمیں نہیں ملتا۔ اگر ہماری محنت، صلاحیتیں، جسم کا سارا زور کسی بازار میں بکتا ہی نہیں اور اس کا کوئی معاوضہ ہمیں ملتا ہی نہیں تو ہم اپنی زندگی کی ضرورتیں کس سرمائے سے پوری کریں گے اور اگر ہمیں اپنی محنت کا کوئی گاہک مل بھی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہمیں اپنی محنت بیچنے کے بعد جو کچھ مل پایا ہے اُس قلیل معاوضے سے ہم اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھا سکتے بھی ہیں یا نہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کے خریدار بھی ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کے ہاتھ بک بھی رہے ہیں لیکن ہماری بولی اتنی کم لگ رہی ہے، ہمیں معاوضہ اتنا کم مل رہا ہے کہ دکانداروں کے ہاتھ بک کر بھی ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ (جاری ہے)