حامد ولید ۔۔۔
بے یقینی کا یقین ہمارے اندر بے چینی پیدا کرتا ہے.....جب انسان پورے اعتماد سے بداعتمادی کا شکار ہوجائے ،اس کی بے چینی شروع ہو جاتی ہے اوراسے ہر ذمہ دار انتہائی غیر ذمہ دار اور ہر چوکیدار پر چور کا گمان گزرتا ہے !پاکستانی عوام کا حکمرانوں کے بارے میں کچھ ایسا ہی تاثر بنتا جا رہا ہے !
دکھ تو یہ ہے کہ ملک میں عوامی بے چینی جوں جوں بڑھ رہی ہے، حکومتی کارکردگی توں توں کم ہوتی جا رہی ہے.....
بے چینی حالات کی پیداوار ہوتی ہے.....یہ ایک طرح کے حالات سے جنم لیتی ہے اور دوسری طرح کے حالات پر منتج ہوتی ہے!بے چینی انفرادی ہو تو فرد کی ذات میں انقلاب برپا کرتی ہے اور اجتماعی بے چینی ہجوم کو ایک مضبوط گروہ کی شکل دے دیا کرتی ہے!....
ہمارے حکمران یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوامی مسائل مستقل نوعیت کے ہوتے ہیں، کمی بیشی کے باوجود ان کی نوعیت قریباً ایک سی رہتی ہے.....یہ گرگٹ کی طرح رنگ تو بدلتے ہیں،حالت نہیں بدلتے!
عوام کا براہ راست تعلق ریاست سے ہوتا ہے اور ریاست اور عوام کے درمیان حکومت پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ پل کمزور ہو تو عوام کا ریاست سے ناطہ کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور ہر کوئی بھاگنے کی راہ ڈھونڈتا ہے، جیسا کہ اب ہو رہا ہے!.....معیشت عوام اور ریاست کے مابین لین دین کا عمل ہے۔ عوام جس سکے میں خریدتی ہے، ریاست اس سکے میں بیچتی نہیں ہے اور ریاست جس سکے پر اپنی ساکھ قائم کرتی ہے، عوام کا اس سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا!..............بے چینی معیشت کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے، معیشت ایک انچ بھی ادھر ادھر ہو، یہ سر نکالنے لگتی ہے!
بے چینی قسم قسم کی ہوتی ہے اور ہر بے چینی کا اپنا اپنا حل ہوتا ہے۔ ساری بے چینیوں کو آپس میں خلط ملط کر کے کوئی حل نہیں نکالا جا سکتا۔ بیٹھے ہوئے شخص کی بے چینی، کھڑے ہوئے کی بے چینی سے مختلف ہوتی ہے اور کھڑے ہوئے کی بے چینی بھاگنے والے کی بے چینی سے مختلف ہوتی ہے۔ غریب کی بے چینی، امیر کی بے چینی سے مختلف ہوتی ہے۔ پیٹ بھرے کی بے چینی ، خالی پیٹ والے کی بے چینی سے مختلف ہوگی ......زرداری کی بے چینی اور، خواری کی بے چینی اور!
ہم اپنی اپنی بے چینیاں لے کر اپنے اپنے گھروں سے نکلتے ہیںیا پھر اپنے اپنے گھروں میں قید رہتے ہیں۔ یہ بے چینیاں جب گروہ کی صورت یکجا ہوتی ہیں تو محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ان بے چینیوں پر قابو پانا، ان کو سدھائے رکھنا ہی سیاست ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ سیاستدان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے اور عوام کی نبض حالات کے ہاتھ میں ہوتی ہے!
بے چینی پریشانی کو جنم دیتی ہے اور پریشانی انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے....کہیں دشمن یہی تو نہیں چاہتا؟
لوگ اس صورت حال میں ایک قیادت سے مایوس ہو کر دوسری قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں.....نواز شریف کو اس بے چینی سے چھٹکارے کے لئے کوئی تدبیر کرنا ہوگی، لیکن ان کے یوٹرن نے بھی ایک وکھری ٹائپ کی بے چینی پیدا کر دی ہے۔
امریکی ڈالروں کی چمک نے سب کی آنکھوں کو خیرہ کردیا ہوا ہے اور اس کی آس میں تو ہم چالیس ارب ڈالر اپنی جیب سے بھی لگا چکے ہیں!
اللہ ہماری بے چینیوں کو چین عطا کرے، آمین!
بے یقینی کا یقین ہمارے اندر بے چینی پیدا کرتا ہے.....جب انسان پورے اعتماد سے بداعتمادی کا شکار ہوجائے ،اس کی بے چینی شروع ہو جاتی ہے اوراسے ہر ذمہ دار انتہائی غیر ذمہ دار اور ہر چوکیدار پر چور کا گمان گزرتا ہے !پاکستانی عوام کا حکمرانوں کے بارے میں کچھ ایسا ہی تاثر بنتا جا رہا ہے !
دکھ تو یہ ہے کہ ملک میں عوامی بے چینی جوں جوں بڑھ رہی ہے، حکومتی کارکردگی توں توں کم ہوتی جا رہی ہے.....
بے چینی حالات کی پیداوار ہوتی ہے.....یہ ایک طرح کے حالات سے جنم لیتی ہے اور دوسری طرح کے حالات پر منتج ہوتی ہے!بے چینی انفرادی ہو تو فرد کی ذات میں انقلاب برپا کرتی ہے اور اجتماعی بے چینی ہجوم کو ایک مضبوط گروہ کی شکل دے دیا کرتی ہے!....
ہمارے حکمران یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوامی مسائل مستقل نوعیت کے ہوتے ہیں، کمی بیشی کے باوجود ان کی نوعیت قریباً ایک سی رہتی ہے.....یہ گرگٹ کی طرح رنگ تو بدلتے ہیں،حالت نہیں بدلتے!
عوام کا براہ راست تعلق ریاست سے ہوتا ہے اور ریاست اور عوام کے درمیان حکومت پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ پل کمزور ہو تو عوام کا ریاست سے ناطہ کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور ہر کوئی بھاگنے کی راہ ڈھونڈتا ہے، جیسا کہ اب ہو رہا ہے!.....معیشت عوام اور ریاست کے مابین لین دین کا عمل ہے۔ عوام جس سکے میں خریدتی ہے، ریاست اس سکے میں بیچتی نہیں ہے اور ریاست جس سکے پر اپنی ساکھ قائم کرتی ہے، عوام کا اس سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا!..............بے چینی معیشت کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے، معیشت ایک انچ بھی ادھر ادھر ہو، یہ سر نکالنے لگتی ہے!
بے چینی قسم قسم کی ہوتی ہے اور ہر بے چینی کا اپنا اپنا حل ہوتا ہے۔ ساری بے چینیوں کو آپس میں خلط ملط کر کے کوئی حل نہیں نکالا جا سکتا۔ بیٹھے ہوئے شخص کی بے چینی، کھڑے ہوئے کی بے چینی سے مختلف ہوتی ہے اور کھڑے ہوئے کی بے چینی بھاگنے والے کی بے چینی سے مختلف ہوتی ہے۔ غریب کی بے چینی، امیر کی بے چینی سے مختلف ہوتی ہے۔ پیٹ بھرے کی بے چینی ، خالی پیٹ والے کی بے چینی سے مختلف ہوگی ......زرداری کی بے چینی اور، خواری کی بے چینی اور!
ہم اپنی اپنی بے چینیاں لے کر اپنے اپنے گھروں سے نکلتے ہیںیا پھر اپنے اپنے گھروں میں قید رہتے ہیں۔ یہ بے چینیاں جب گروہ کی صورت یکجا ہوتی ہیں تو محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ان بے چینیوں پر قابو پانا، ان کو سدھائے رکھنا ہی سیاست ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ سیاستدان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے اور عوام کی نبض حالات کے ہاتھ میں ہوتی ہے!
بے چینی پریشانی کو جنم دیتی ہے اور پریشانی انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے....کہیں دشمن یہی تو نہیں چاہتا؟
لوگ اس صورت حال میں ایک قیادت سے مایوس ہو کر دوسری قیادت کی جانب دیکھ رہے ہیں.....نواز شریف کو اس بے چینی سے چھٹکارے کے لئے کوئی تدبیر کرنا ہوگی، لیکن ان کے یوٹرن نے بھی ایک وکھری ٹائپ کی بے چینی پیدا کر دی ہے۔
امریکی ڈالروں کی چمک نے سب کی آنکھوں کو خیرہ کردیا ہوا ہے اور اس کی آس میں تو ہم چالیس ارب ڈالر اپنی جیب سے بھی لگا چکے ہیں!
اللہ ہماری بے چینیوں کو چین عطا کرے، آمین!