انجینئر محمد سلیم اللہ خان ....
گذشتہ روز صدر زرداری نے اعلان کیا ہے کہ اسی ماہ 1973ء کا آئین ’’اصلی حالت‘‘ میں بحال کر دیا جائیگا۔ ظاہر میں دل خوشکن یہ ایک خطرناک اعلان ہے جس کی آڑ میں قرارداد مقاصد جواب نافذ العمل آرٹیکل 2 الف میں موجود ہے اسے ختم کرنا‘ قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی آٹھویں ترمیم اور ناموس رسالت کے قانون 295 سی کی شرعی سزا موت کو ختم کرنا اور فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کی آرٹیکل 203 اور دوسری اسلامی دفعات کو ختم کرنا اور ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کی دوبارہ عدالت عظمیٰ میں کارروائی کے امکان کو ختم کرنا اور عدالت عظمیٰ کے NRO کے فیصلہ پر عملدرآمد روکنا بھی شامل ہے۔ نئے آئینی پیکیج کی آڑ میں مشرف دور کے چند قوانین اور آئینی ترامیم کو تحفظ دینا بھی اور سترہویں ترمیم کے خاتمہ کو طول دینا بھی شامل ہے ۔
12 اکتوبر 1999ء کے آئین میں یہ سب دفعات اور آرٹیکل شامل چلے آرہے ہیں جبکہ مشرف نے اپنے دور میں جتنی آئینی ترامیم اور قوانین لاگو کئے اور سب سے بڑھ کر اپنے مارشل لاء کو آئینی حیثیت دلوائی 17ویں ترمیم میں شامل ہے۔ جسے مشرف دور کی پارلیمنٹ نے Indemnity منظور کرکے آئینی تحفظ فراہم کیا ہے۔
بدنیتی پر مبنی ان مقاصد کے حصول کیلئے آئین کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کیمطابق بنانے‘ عوامی سیاسی جمہوری مطالبات مشرف کے آخری دور کی وکلاء تحریک آزاد عدلیہ کے نتیجہ میں فروری 18 کے انتخابات میں جو عوامی مینڈیٹ ملا تھا وہ صرف سترہویں ترمیم کے خاتمہ کیلئے مشرف پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ اور مشرف کی پالیسیوں کو رد کرنا شامل تھا۔ نیا آئینی پیکیج شامل نہ تھا۔ آزاد عدلیہ کی بحالی کے بعد عدالت عظمیٰ نے مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے PCO کو کالعدم اور ججوں کی تعیناتی پر عدالت عظمیٰ نے آئینی تشریحات کے فیصلے 31 جولائی 2009ء کو دے دئیے ہیں۔ نئے پیکیج کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے کہ آزاد عدلیہ کو مقننہ کے تابع بنایا جائے جس میں ججوں کے انتخاب کیلئے ایک پارلیمانی کمیشن کا قیام شامل ہے۔ یہ آزاد عدلیہ کی نفی ہے۔ حالانکہ ججوں کے انتخاب کی آئینی دفعات کی تشریح عدالت عظمیٰ نے کر دی ہے جس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے اور یہ عوامی مطالبہ ہے‘ نہ تھا۔ جبکہ عوامی انتخابات میں سترہویں ترمیم کا خاتمہ اصل مطالبہ رہا ہے۔ صرف اسی کو ختم کرنے کے قرآن پر وعدے صدر زرداری نے میاں نواز شریف کیساتھ کئے تھے اور پھر منحرف ہو گئے اور (2)58 بی کے صدارتی اختیارات کو اپنے حق میں محفوظ رکھنے کیلئے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے تقاضے جو 2006ء میں طے پایا تھا اور اس پر بے نظیر صاحبہ سے لیکر زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی نے اب تک عملدرآمد نہ کیا نئے آئینی پیکیج کو 17ویں ترمیم کے خاتمہ پر اولیت دیکر سترہویں ترمیم کے فوری خاتمہ کو چار سال تک ٹالا گیا ہے۔ قوم کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ اور نئے آئینی پیکیج کے چکر میں لاکر اب تک مشرف کے آئین اور پالیسیوں پر ہی عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 17ویں آئین ترمیم سمیت موجودہ آئین میں سورنٹی اللہ تعالیٰ کی ہے اور منتخب پارلیمنٹ عدلیہ و انتظامیہ اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عملدرآمد کی پابند ہیں۔ اس طرح قرآن و سنت کی تعلیمات آئینی اور قانونی دفعات کا ماخذ Grundnom ہیں لیکن اب ایک سیکولر میثاق جمہوریت کو آئینی پیکیج کا Grundnom قرار دیکر آئینی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ یہ سراسر کفر اور اسلامی بنیاد کو منہدم کرنے کی سازش ہے۔ جس میں طول دینے کیلئے 17ویں ترمیم کا خاتمہ بھی شامل کیا ہے اور عدالت عظمیٰ کے NRO کے خاتمہ کے فیصلہ پر عملدرآمد میں حیلوں بہانوں سے طول سے کر عملدرآمد سے قبل آئینی پیکیج منظور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاکہ آزاد عدلیہ کے پر کاٹ دئیے جائیں اور قومی لوٹی ہوئی دولت ہضم کر لی جائے۔ قوم یہ سب کچھ کرنے نہیں دیگی اور تحریک اٹھے گی۔اس طرح 17ویں ترمیم کے خاتمہ کے فوری مطالبہ کو اسلامی آئینی بنیاد کو ڈھانے کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ 2006ء سے میاں نواز شریف اپنی سادہ لوحی موجودہ جمہوری نظام کو غیر مستحکم نہ ہونے دینے کی پالیسی کی وجہ سے صدر زرداری کی بنیادی وعدہ خلافیوں کو پیتے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ غربت‘ (دس کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں) مہنگائی (300 فیصد) بجلی (بحران)‘ پانی اور بیروزگاری‘ خود کشیوں اور خود کش حملوں‘ اسی ایک ہفتہ پہلے لاہور میں آٹھ تباہ کن دھماکے ہوئے ہیں۔ روزانہ کروڑوں کے ڈاکے‘ قتل کی وارداتیں اور امریکی ڈرون حملوں‘ واران ٹیرر کے نتیجے میں 40 ارب ڈالر کے قومی نقصانات بھارت کے ہمارے تینوں دریاؤں چناب‘ جہلم‘ سندھ کے پانیوں پر 62 ڈیموں کے ذریعہ بھارتی قبضہ سے تنگ ساری قوم موجودہ حکومت کی دستبرداری کی تحریک کیلئے تڑپ رہی ہے۔ لیکن میاں نواز شریف لندن‘ چین‘ سنگاپور کے دوروں میں مصروف ہیں اور صدر زرداری کا دورہ دبئی‘ لندن سوئس کیسز پر محیط ہے۔ میڈیا وکلاء سول سوسائٹی کی کامیاب تحریک اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ 17ویں ترمیم کے خاتمہ کیلئے اسی طرح کی تحریک فوری چلائی جائے۔ غربت مہنگائی فوری ختم کی جائے۔ مشرف پر مقدمہ چلایا جائے۔ آئینی پیکیج کی وہ ایمرجنسی اور Urgency نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے اس وعدہ خلاف اور دھوکہ دہی کے متعلق رویہ کے بارے میں میثاق جمہوریت کے بعد لندن میں راقم الحروف نے 2006ء میں میاں نواز شریف سے ملاقات میں پیش گوئی کر دی تھی کہ وہ انہیں دھوکہ دے گی جو اس کی تاریخ سے ثابت ہے۔ اس سیکولر اقتداری میثاق کی بجائے عوام کے مسائل غربت مہنگائی کے حل کیلئے مسلم لیگ (ن) کے اسلامی جمہوری اتحاد کے منشور پر تحریک چلائی جائے تو قوم بھرپور ساتھ دیگی۔ یہی تذکرہ میاں صاحب سے جدہ کے سرور پیلس میں بھی دو ملاقاتوں میں کیا تھا۔
لیکن وہ اسلامی نظام کے مطالبہ سے گریزاں ہیں حالانکہ ہماری جماعت جمعیت علماء پاکستان کے صدر مولانا محمد عبدالستار خان نیازی مرحوم کیساتھ دس سالہ سیاسی تعاون کے نوشتہ معاہدہ میں ملک میں نفاذ شریعت‘ سود کا خاتمہ اور خلافت راشدہ کا نظام اور حضرت میاں میرؒ کی وقف زمین پر ایک قومی سطح کا مرکز اہلسنت قائم کیا جانا شامل تھا۔ ایک بہت بڑا مغالطہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف ایک ہو کر قوم کے سامنے عمل پیرا ہیں کہ روایتی حزب اختلاف کے کردار سے موجودہ جمہوری نظام ختم ہو جائیگا جس کے باعث جمہوریت کے معنی عوام کا اقتدار نہیں بلکہ صرف صدر زرداری کا اقتدار بن گیا ہے۔ انہیں یہ غلط فہمی بھی دور کر لینی چاہئے کہ جس طرح زرداری حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام چلی آرہی ہے اور میاں نواز شریف حزب اختلاف کا کردار نہیں اپناتے تو موجودہ جمہوریت اپنے وزن تلے خود دب جائیگی۔ پھر مارشل لاء نہ آئینی پیکیج سے رکے گا۔ وہ تو صرف ایک پلاٹون ایک ٹرک ایک جیپ اور ایک کرنل سے آتا ہے۔ آئندہ مارشل لاء کو بھی میثاق جمہوریت سے نہیں روکا جا سکتا بلکہ اس کو عوامی تحریک سے ہی روکا جا سکتا ہے‘ اس لئے آئینی پیکیج کے پنڈورا باکس کی بجائے جمہوریت کی بقاء کیلئے مندرجہ ذیل مقاصد کی تحریک اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
-1 17ویں ترمیم فوری ختم کی جائے جو پارلیمنٹ کا پانچ منٹ کا کام ہے۔
-2 امریکی وارآن ٹیرر سے دستکشی کر لی جائے۔
-3 غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگار کا خاتمہ‘ پیداواری بڑھوتری کی انجینئرنگ پالیسیوں سے کیا جائے۔
-4 سود بنکوں سے امریکہ کی طرح اور قرضوں سے ختم کیا جائے اور قرضوں اور بنکاری کو شراکتی سرمایہ سے پورا کیا جائے۔
-5 بھارت کو اپنے دریاؤں کے پانیوں پر قبضہ اور کشمیر پر قبضہ چھڑانے کیلئے ایٹمی جنگ کا الٹی میٹم دیا جائے اور ضروری ہو تو ایٹمی جنگ کی جائے جس میں ہم جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بھوکے پیاسے رگڑ رگڑ کر مرنے سے بچ سکتے ہیں۔
-6 مشرف کی پالیسیاں اپنائے رکھنے پر صدر زرداری سے استعفیٰ لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدر بنایا جائے۔
-7 مشرف پر غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
-8 18 فروری کے انتخابات میں عوام نے نئے آئینی پیکیج کیلئے مینڈیٹ نہیں دیا ہے پہلے عوام کے مسائل حل کئے جائیں اوپر کے مقاصد عوامی تحریک سے حاصل ہونے کے بعد آئینی پیکیج کو مشتہر کرکے ریفرنڈم کرایا جائے۔
گذشتہ روز صدر زرداری نے اعلان کیا ہے کہ اسی ماہ 1973ء کا آئین ’’اصلی حالت‘‘ میں بحال کر دیا جائیگا۔ ظاہر میں دل خوشکن یہ ایک خطرناک اعلان ہے جس کی آڑ میں قرارداد مقاصد جواب نافذ العمل آرٹیکل 2 الف میں موجود ہے اسے ختم کرنا‘ قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی آٹھویں ترمیم اور ناموس رسالت کے قانون 295 سی کی شرعی سزا موت کو ختم کرنا اور فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کی آرٹیکل 203 اور دوسری اسلامی دفعات کو ختم کرنا اور ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کی دوبارہ عدالت عظمیٰ میں کارروائی کے امکان کو ختم کرنا اور عدالت عظمیٰ کے NRO کے فیصلہ پر عملدرآمد روکنا بھی شامل ہے۔ نئے آئینی پیکیج کی آڑ میں مشرف دور کے چند قوانین اور آئینی ترامیم کو تحفظ دینا بھی اور سترہویں ترمیم کے خاتمہ کو طول دینا بھی شامل ہے ۔
12 اکتوبر 1999ء کے آئین میں یہ سب دفعات اور آرٹیکل شامل چلے آرہے ہیں جبکہ مشرف نے اپنے دور میں جتنی آئینی ترامیم اور قوانین لاگو کئے اور سب سے بڑھ کر اپنے مارشل لاء کو آئینی حیثیت دلوائی 17ویں ترمیم میں شامل ہے۔ جسے مشرف دور کی پارلیمنٹ نے Indemnity منظور کرکے آئینی تحفظ فراہم کیا ہے۔
بدنیتی پر مبنی ان مقاصد کے حصول کیلئے آئین کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کیمطابق بنانے‘ عوامی سیاسی جمہوری مطالبات مشرف کے آخری دور کی وکلاء تحریک آزاد عدلیہ کے نتیجہ میں فروری 18 کے انتخابات میں جو عوامی مینڈیٹ ملا تھا وہ صرف سترہویں ترمیم کے خاتمہ کیلئے مشرف پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ اور مشرف کی پالیسیوں کو رد کرنا شامل تھا۔ نیا آئینی پیکیج شامل نہ تھا۔ آزاد عدلیہ کی بحالی کے بعد عدالت عظمیٰ نے مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے PCO کو کالعدم اور ججوں کی تعیناتی پر عدالت عظمیٰ نے آئینی تشریحات کے فیصلے 31 جولائی 2009ء کو دے دئیے ہیں۔ نئے پیکیج کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے کہ آزاد عدلیہ کو مقننہ کے تابع بنایا جائے جس میں ججوں کے انتخاب کیلئے ایک پارلیمانی کمیشن کا قیام شامل ہے۔ یہ آزاد عدلیہ کی نفی ہے۔ حالانکہ ججوں کے انتخاب کی آئینی دفعات کی تشریح عدالت عظمیٰ نے کر دی ہے جس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے اور یہ عوامی مطالبہ ہے‘ نہ تھا۔ جبکہ عوامی انتخابات میں سترہویں ترمیم کا خاتمہ اصل مطالبہ رہا ہے۔ صرف اسی کو ختم کرنے کے قرآن پر وعدے صدر زرداری نے میاں نواز شریف کیساتھ کئے تھے اور پھر منحرف ہو گئے اور (2)58 بی کے صدارتی اختیارات کو اپنے حق میں محفوظ رکھنے کیلئے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے تقاضے جو 2006ء میں طے پایا تھا اور اس پر بے نظیر صاحبہ سے لیکر زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی نے اب تک عملدرآمد نہ کیا نئے آئینی پیکیج کو 17ویں ترمیم کے خاتمہ پر اولیت دیکر سترہویں ترمیم کے فوری خاتمہ کو چار سال تک ٹالا گیا ہے۔ قوم کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ اور نئے آئینی پیکیج کے چکر میں لاکر اب تک مشرف کے آئین اور پالیسیوں پر ہی عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 17ویں آئین ترمیم سمیت موجودہ آئین میں سورنٹی اللہ تعالیٰ کی ہے اور منتخب پارلیمنٹ عدلیہ و انتظامیہ اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عملدرآمد کی پابند ہیں۔ اس طرح قرآن و سنت کی تعلیمات آئینی اور قانونی دفعات کا ماخذ Grundnom ہیں لیکن اب ایک سیکولر میثاق جمہوریت کو آئینی پیکیج کا Grundnom قرار دیکر آئینی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ یہ سراسر کفر اور اسلامی بنیاد کو منہدم کرنے کی سازش ہے۔ جس میں طول دینے کیلئے 17ویں ترمیم کا خاتمہ بھی شامل کیا ہے اور عدالت عظمیٰ کے NRO کے خاتمہ کے فیصلہ پر عملدرآمد میں حیلوں بہانوں سے طول سے کر عملدرآمد سے قبل آئینی پیکیج منظور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاکہ آزاد عدلیہ کے پر کاٹ دئیے جائیں اور قومی لوٹی ہوئی دولت ہضم کر لی جائے۔ قوم یہ سب کچھ کرنے نہیں دیگی اور تحریک اٹھے گی۔اس طرح 17ویں ترمیم کے خاتمہ کے فوری مطالبہ کو اسلامی آئینی بنیاد کو ڈھانے کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ 2006ء سے میاں نواز شریف اپنی سادہ لوحی موجودہ جمہوری نظام کو غیر مستحکم نہ ہونے دینے کی پالیسی کی وجہ سے صدر زرداری کی بنیادی وعدہ خلافیوں کو پیتے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ غربت‘ (دس کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں) مہنگائی (300 فیصد) بجلی (بحران)‘ پانی اور بیروزگاری‘ خود کشیوں اور خود کش حملوں‘ اسی ایک ہفتہ پہلے لاہور میں آٹھ تباہ کن دھماکے ہوئے ہیں۔ روزانہ کروڑوں کے ڈاکے‘ قتل کی وارداتیں اور امریکی ڈرون حملوں‘ واران ٹیرر کے نتیجے میں 40 ارب ڈالر کے قومی نقصانات بھارت کے ہمارے تینوں دریاؤں چناب‘ جہلم‘ سندھ کے پانیوں پر 62 ڈیموں کے ذریعہ بھارتی قبضہ سے تنگ ساری قوم موجودہ حکومت کی دستبرداری کی تحریک کیلئے تڑپ رہی ہے۔ لیکن میاں نواز شریف لندن‘ چین‘ سنگاپور کے دوروں میں مصروف ہیں اور صدر زرداری کا دورہ دبئی‘ لندن سوئس کیسز پر محیط ہے۔ میڈیا وکلاء سول سوسائٹی کی کامیاب تحریک اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ 17ویں ترمیم کے خاتمہ کیلئے اسی طرح کی تحریک فوری چلائی جائے۔ غربت مہنگائی فوری ختم کی جائے۔ مشرف پر مقدمہ چلایا جائے۔ آئینی پیکیج کی وہ ایمرجنسی اور Urgency نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے اس وعدہ خلاف اور دھوکہ دہی کے متعلق رویہ کے بارے میں میثاق جمہوریت کے بعد لندن میں راقم الحروف نے 2006ء میں میاں نواز شریف سے ملاقات میں پیش گوئی کر دی تھی کہ وہ انہیں دھوکہ دے گی جو اس کی تاریخ سے ثابت ہے۔ اس سیکولر اقتداری میثاق کی بجائے عوام کے مسائل غربت مہنگائی کے حل کیلئے مسلم لیگ (ن) کے اسلامی جمہوری اتحاد کے منشور پر تحریک چلائی جائے تو قوم بھرپور ساتھ دیگی۔ یہی تذکرہ میاں صاحب سے جدہ کے سرور پیلس میں بھی دو ملاقاتوں میں کیا تھا۔
لیکن وہ اسلامی نظام کے مطالبہ سے گریزاں ہیں حالانکہ ہماری جماعت جمعیت علماء پاکستان کے صدر مولانا محمد عبدالستار خان نیازی مرحوم کیساتھ دس سالہ سیاسی تعاون کے نوشتہ معاہدہ میں ملک میں نفاذ شریعت‘ سود کا خاتمہ اور خلافت راشدہ کا نظام اور حضرت میاں میرؒ کی وقف زمین پر ایک قومی سطح کا مرکز اہلسنت قائم کیا جانا شامل تھا۔ ایک بہت بڑا مغالطہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف ایک ہو کر قوم کے سامنے عمل پیرا ہیں کہ روایتی حزب اختلاف کے کردار سے موجودہ جمہوری نظام ختم ہو جائیگا جس کے باعث جمہوریت کے معنی عوام کا اقتدار نہیں بلکہ صرف صدر زرداری کا اقتدار بن گیا ہے۔ انہیں یہ غلط فہمی بھی دور کر لینی چاہئے کہ جس طرح زرداری حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام چلی آرہی ہے اور میاں نواز شریف حزب اختلاف کا کردار نہیں اپناتے تو موجودہ جمہوریت اپنے وزن تلے خود دب جائیگی۔ پھر مارشل لاء نہ آئینی پیکیج سے رکے گا۔ وہ تو صرف ایک پلاٹون ایک ٹرک ایک جیپ اور ایک کرنل سے آتا ہے۔ آئندہ مارشل لاء کو بھی میثاق جمہوریت سے نہیں روکا جا سکتا بلکہ اس کو عوامی تحریک سے ہی روکا جا سکتا ہے‘ اس لئے آئینی پیکیج کے پنڈورا باکس کی بجائے جمہوریت کی بقاء کیلئے مندرجہ ذیل مقاصد کی تحریک اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
-1 17ویں ترمیم فوری ختم کی جائے جو پارلیمنٹ کا پانچ منٹ کا کام ہے۔
-2 امریکی وارآن ٹیرر سے دستکشی کر لی جائے۔
-3 غربت‘ مہنگائی‘ بیروزگار کا خاتمہ‘ پیداواری بڑھوتری کی انجینئرنگ پالیسیوں سے کیا جائے۔
-4 سود بنکوں سے امریکہ کی طرح اور قرضوں سے ختم کیا جائے اور قرضوں اور بنکاری کو شراکتی سرمایہ سے پورا کیا جائے۔
-5 بھارت کو اپنے دریاؤں کے پانیوں پر قبضہ اور کشمیر پر قبضہ چھڑانے کیلئے ایٹمی جنگ کا الٹی میٹم دیا جائے اور ضروری ہو تو ایٹمی جنگ کی جائے جس میں ہم جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بھوکے پیاسے رگڑ رگڑ کر مرنے سے بچ سکتے ہیں۔
-6 مشرف کی پالیسیاں اپنائے رکھنے پر صدر زرداری سے استعفیٰ لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدر بنایا جائے۔
-7 مشرف پر غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
-8 18 فروری کے انتخابات میں عوام نے نئے آئینی پیکیج کیلئے مینڈیٹ نہیں دیا ہے پہلے عوام کے مسائل حل کئے جائیں اوپر کے مقاصد عوامی تحریک سے حاصل ہونے کے بعد آئینی پیکیج کو مشتہر کرکے ریفرنڈم کرایا جائے۔