ڈالر کو امریکا بطور ہتھیار کیسے استعمال کرتا ہے؟

گزشتہ کالم میں پاکستان معیشت اور امریکی ڈالر کے تعلق پر بات کی گئی تھی۔ اس کالم کے آخر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ امریکا ڈالر کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئندہ کسی کالم میں اس موضوع پر تفصیلی بات کی جائے گی کہ امریکا کس طرح ڈالر کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ یوں اس مضمون کو گزشتہ کالم کی اگلی کڑی سمجھا جانا چاہیے۔ اس وضاحت کے بعد اب آتے ہیں موضوع کی طرف۔ پچھلی تقریباً پون صدی کے دوران دنیا کے مختلف علاقوں میں پیش بڑے بڑے واقعات اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرچکے ہیں کہ امریکا دنیا میں اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے اور اس سلسلے میں یورپی ممالک پوری طرح اس کی حمایت اور پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہ حمایت مفت میں نہیں کی جاتی بلکہ یورپی ممالک اس کے بدلے کئی فوائد سمیٹتے ہیں۔ خاص طور پر جن ممالک میں پنجے گاڑھ کر امریکا وہاں کے قدرتی وسائل لوٹتا ہے ان میں سے یورپی ممالک اور ان کے ادارے بھی اپنا حصہ بقدرِ جثہ وصول کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں رواں صدی کی گزشتہ دو دہائیوں پر ہی نظر ڈال لی جائے تو افغانستان، عراق اور لیبیا جیسی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں لیکن یہ وہ ممالک ہیں جن پر قبضہ کرنے سے پہلے امریکا اور اس کے حواریوں نے دنیا کو ان کے بارے میں جھوٹی کہانیاں گھڑ کر سنائیں، اقوامِ متحدہ نامی عالمی کٹھ پتلی ادارے کو استعمال کیا اور پھر مقامی آبادی میں جہاں جہاں سے کسی ردعمل کا امکان دکھائی دیا وہاں آتش و آہن برسا کر قدرتی وسائل لوٹنے کے لیے راہ ہموار کی۔ ان کے علاوہ دنیا میں ایسے خطے اور ممالک بھی موجود ہیں جہاں امریکا اور اس کے یورپی حامیوں نے جا کر کسی جنگ کے نتیجے میں تو قبضہ نہیں کیا لیکن وہاں اپنے بڑے بڑے اداروں اور کثیر ملکی کمپنیوں کو بھیج کر یوں پنجے گاڑھ لیے کہ مقامی آبادی کو بے بس کر کے وہاں کے قدرتی وسائل کا سارا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مقامی آبادی کو یقین دلایا کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ آپ کے فائدے کے لیے ہے۔ یوں کہنے کو تو امریکا اور اس کے حامی ان خطوں اور ممالک کے لوگوں کی مدد کررہے ہیں لیکن امداد و اعانت کے پردے میں ان کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے۔
مذکورہ دو طریقوں کے علاوہ امریکا کے پاس ایک اور بھی طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ دنیا میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے سرگرمِ عمل رہتا ہے، اور وہ طریقہ ہے ڈالر کو بطور ہتھیار استعمال کر کے مختلف ممالک کو اپنے ہاتھ کے نیچے رکھنے کا۔ اسی لیے ماہرین ڈالر کو امریکا کا غیر روایتی ہتھیار بھی کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں اس وقت ڈالر کو ایک ایسی کرنسی کی حیثیت حاصل ہے جو نہ صرف بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال کی جاتی ہے بلکہ زیادہ تر ممالک اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کا بڑا حصہ بھی اسی کرنسی میں رکھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، اس وقت پوری دنیا میں امریکی ڈالر زرِ مبادلہ کے نصف سے زائد ذخائر اور بین الاقوامی تجارتی لین دین کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ اس صورتحال نے دنیا میں ڈالر پر مبنی ایک ایسے مالیاتی نظام کو پروان چڑھایا ہے جو عالمی سطح پر امریکا کی طاقت میں اضافے کا باعث بنا ہے اور امریکا کئی مواقع پر اس سے خوب فائدہ بھی اٹھاتا ہے، جیسے روس اور یوکرائن کے مابین جاری حالیہ جنگ کے دوران امریکا نے ڈالر کی بنیاد پر پابندیاں لگا کر اپنا پلہ بھاری کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈالر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے پیچھے صرف امریکی طاقت ہی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں کئی ممالک نے اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ 1944 ء کے بریٹن وُڈز معاہدے (Bretton Woods Agreement) کے تحت کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور مغربی یورپی ممالک نے امریکی ڈالر کو عالمی سطح پر وہ اہمیت دلائی جس سے امریکا کو عالمی طاقت کا درجہ حاصل کرنے میں مدد ملی۔ اس معاہدے کے ذریعے امریکی ڈالر اور سونے کے درمیان باہمی تبادلے کا ایک ایسا تعلق پیدا کیا گیا جس سے امریکا کے ہاتھ مضبوط ہوئے۔ 1971ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے اقتصادی اقدامات کے نتیجے میں ڈالر اور سونے کے مابین تبادلے کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اسی طرح عالمی اقتصادی نظام میں آنے والی بہت سی تبدیلیوں نے مضبوط ممالک کی ترجیحات تو بدلیں لیکن عالمی سطح پر امریکا کا تسلط کم نہیں ہوا۔ 1991ء میں سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد یہ تسلط مزید مستحکم ہوگیا۔
دریں اثنا، امریکا نے عسکری حوالے سے خود کو اتنا مضبوط بنا لیا اور دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک پر یورپی ممالک کو ساتھ ملا کر اپنی دھاک یوں جما لی کہ اب وہ بلا شراکتِ غیرے عالمی سپر پاور سمجھا جاتا ہے۔ اس صورتحال سے روس جیسے تگڑے ملکوں کو تو شاید کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی معیشتیں اتنی مضبوط ہیں کہ امریکا چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا معاملہ اور ہے۔ صرف ایک مثال سے یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ روس کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) ڈیڑھ ٹریلین ڈالرز کے لگ بھگ ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کے پاس موجود زرِ مبادلہ کے ذخائر اس کی جی ڈی پی کا 35 فیصد ہیں جن میں سے 21 فیصد ذخائر سونے پر مبنی ہیں اور 14 فیصد دوسری کرنسیوں پر جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی کا حجم تین سو بلین ڈالرز سے بھی کم ہے اور ہمارے پاس موجود زرِ مبادلہ کے ذخائر جی ڈی پی کا دس فیصد بھی نہیں ہیں۔ اندریں حالات، ہم اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دوست ممالک سمیت ہر ایک دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں، اور یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات کو بہتر بنانے میں بھی امریکا نے اپنا کردار ادا کیا۔