جمعرات ، 1443ھ،30 جون 2022 ء
ٹرین مارچ کو پذیرائی ملی، قوم کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ سراج الحق
اول تو سوائے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے شاید ہی کسی اور کو اس ٹرین مارچ کا علم ہوا ہو گا۔ اس پر ’’جنگل میں موڑ ناچا کس نے دیکھا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ہاں البتہ سٹیشنوں پر آنے جانے مسافروں کے رش کی وجہ سے شاید میڈیا رپورٹس دیکھ کر کسی کو خوش فہمی ہوئی ہو تو الگ بات ہے۔ لانگ مارچ ہو یا ٹرین مارچ یہ سب تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں جب عوام ان میں دلچسپی لیں مگر دیکھ لیں چند ماہ پہلے ہی بلاول کی زیر قیادت پیپلز پارٹی والوں نے ٹرین مارچ کیا۔ وہ کب چلا اور ختم ہوا عوام کو شاید ہی یاد ہو۔ بے شک اس وقت جماعت اسلامی مہنگائی کے حوالے سے متحرک ہے اور اپنی آواز بلند کر رہی ہے مگر سوائے جماعت کے کارکنوں کے ان کے ساتھ کوئی اور کیوں نہیں۔ ورنہ پورے ملک کے قربانی کرنے والوں کی بڑی تعداد اپنی کھالیں میرا مطلب ہے جانوروں کی کھالیں جماعت والوں کو دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ہر دور میں خود کو ایک خاص جماعت بنا کر رکھا۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے البتہ جماعت اسلامی کے روایتی انداز سیاست کو مٹا کر اسے ایک عوامی رنگ دینے کی کوشش کی۔ پاسبان اور میوزیکل ترانے انہی کے دور کی یادگار ہیں۔ مگر پھر وہی چار دن کی چاندنی کے بعد والی حالت ہمارے سامنے ہے۔ اس وقت حقیقت میں ملک کو مہنگائی اور غربت کے اژدھے نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اگر جماعت اسلامی والے اس مہنگائی کے خلاف احتجاج کی بجائے جگہ جگہ گلی محلے میں مخیر حضرات کے ساتھ مل کر آٹا دال چینی گھی کے سستے ڈپو قائم کریںویسے ہی جیسے کھالیں جمع کرنے کیمپ قائم کئے جاتے ہیں۔ پھر دیکھیں لوگ کس طرح جماعت کے گن گاتے اور اسے ووٹ نہیں دیتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت خواہ عمران خان کی ہویا شہباز شریف کی، عوام کو مہنگائی اور غربت سے نکالنے میں مخلص نہیں۔
٭٭٭٭٭
موٹروے پولیس نے تیز رفتاری پر شاہد آفریدی کا چالان کر دیا
بہت خوب یہ اچھی بات ہے کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہوتا۔ شاہد آفریدی ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ چالان کرنے والے موٹروے پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ تصویریں بھی بنائیں اور سلفیاں بھی لیں۔ لالہ نے بھی اس بات کا برا نہیں منایا اور خوش دلی سے ان سے چالان وصول کیا اور انہیں شاباش بھی دی اور اپنی غلطی پر معذرت کی۔ یہ ہوتی ہے انسانیت اور تہذیب۔ ورنہ اسی موٹر وے پر اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے والوں نے چالان ہونے پر جو طوفان بدتمیزی برپا کیا وہ بھی لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے۔ موٹر وے پولیس اہلکار بھی انسان ہیں ان کی بھی عزت ہوتی ہے۔ وردی کی حالت میں تو ان کو قانون کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ ابھی تک موٹروے پولیس کے رویے اور کام کی سب تعریف کرتے ہیں چند ایک واقعات سے قطع نظر یہ ایک اچھی فورس ہے جو عوام کے کام آتی ہے۔ بوم بوم لالہ لاہور سے کراچی جا رہے تھے کہ ان کی حد رفتار ان کی تیز رفتار بیٹنگ کی طرح مقررہ حد کراس کر گئی جس کا شاید انہیں علم نہیں ہوا۔ ویسے ہی جیسے گیند پر شارٹ لگاتے ہوئے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ چوکا ہو گا یا چھکا۔ یوں وہ موٹر وے پولیس کے قابو آئے تو انہیں 1500 روپے کا چالان کیا گیا۔ بات چالان یا موٹروے پولیس کی کارکردگی کی نہیں۔ یہ تو انکی ذمہ داری ہے۔ اصل بات شاہد آفریدی کے رویے کی ہے جس نے خود کو پھنے خان سمجھتے ہوئے بدتمیزی کی نہ بدزبانی، یوں ایک قانونی کام ہنستے مسکراتے خوش دلی سے انجام دیا۔ جس کی سب تعریف کر رہے ہیں یوں شاہد آفریدی کی عزت لوگوں کے دلوں میں اور بڑھ گئی ہے۔
٭٭٭٭٭
امریکی عدالت نے سکولوں سمیت سرکاری اداروں میں باجماعت نماز کی اجازت دیدی
امریکہ کی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو آئین کی پہلی ترمیم سے متصادم قرار دیا ہے جس میں ملازمین کے عقائد کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہماری بہترین روایات باہمی احترام اور رواداری کا درس دیتی ہیں۔ بے شک ہر انصاف پسند ملک اور معاشرے میں ہر شہری کو اس کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی‘ عبادات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہمارے مذہب میںتو واضح کہا گیا ہے کہ دین کے معاملات میں زبردستی نہیں‘ یعنی ہر شہری کے عقیدے اور ان کے جان و مال کو تحفظ دیا گیا ہے۔کسی کو جبراً اپنا عقیدہ یا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ میں بھی سپریم کورٹ نے اس رواداری اور باہمی احترام کو بنیاد بنا کر ہر شخص کو عبادت اور دعا مانگنے کی کھلی اجازت دیدی ہے جو خوش آئند ہے۔ اس طرح وہاں رہنے والے لاکھوں مسلمان اب اطمینان سے دفاتر میں‘ سکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوںمیں عبادت کر سکیں گے۔ کاش امریکہ کی طرح دوسرے ممالک کو بھی عقل آئے اور وہ تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے عقیدے اور نظریات کے مطابق کام کرکے ترقی کرنے کی اجازت دیں تو عالمی امن پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ ورنہ ایران‘ افغانستان‘ شام‘ عراق اور یمن میں لگی آگ کے شعلے نجانے کب تک بلند ہوتے رہیں گے ورنہ خطرہ ہے کہیں امریکہ بھی روس کی طرح شکست و ریخت کا شکار نہ ہو جائے۔ امریکی عدالت کا یہ فیصلہ بھارت کیلئے بھی تازیانہ ہے جو پورے ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی مذہبی شناخت عبادات اور عبادتگاہوں کو ختم کرنے کے درپے ہے جہاں مسلمانوں کو جبراً ان کی مذہبی عبادات پر عمل سے بھی روکا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
گوجرانوالہ میں ٹک ٹاکر کا پروٹوکول، پولیس اہلکار سمیت 3 جعلی پولیس والوں پر مقدمہ
قانون کو نجانے کیوں سب نے غریب کی بیوہ سمجھ لیا ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے وہ سرعام اس کا تمسخر اڑاتا پھرتا ہے۔ اس ٹک ٹاکر ڈولی کو ہی دیکھ لیں جو گوجرانوالہ میں ایک پان شاپ پر کسی تقریب میں آئیں تو اس کے ٹور دیکھنے والے تھے۔ ایک اصل پولیس والا اور تین جعلی پولیس والے اس کے اردگرد وی آئی پی والا ماحول بنا کر چل رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جسے ڈولی نہیں کسی کی ڈولی آ رہی ہے۔ اس تقریب کی ویڈیو اور فوٹو وائرل ہونے کے بعد یہ حقیقی پولیس والا تو نوکری سے برخاست ہو گیا۔ باقی کے بارے میں پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ امید واثق ہے کہ ان کی تھانے میں خوب آ ئو بھگت ہو گی کیونکہ ان کی وجہ سے ایک پولیس والا نوکری سے گیا۔ اب اس ٹک ٹاکر کو بھی پوچھا جائے کہ محترمہ آپ کس خوشی میں خود کو وی آئی پی ظاہر کر رہی تھیں۔ کیا پہلے بہت سی ٹک ٹاکر خواتین کے حالات و واقعات سے آپ نے عبرت حاصل نہیں کی۔ اب اگر اس پان شاپ پر کوئی بدمزگی ہو جاتی تو کیا ہوتا ایسے عوامی مقامات پر مقبول عام رنگ والا عوامی لباس بہت سے فتنے جگا سکتا تھا۔ جس سے صرف ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ یہ جعلی سٹیٹس ظاہر کرنا احساس کمتری کے شکار لوگوں کا کام ہوتا ہے جس کی سزا ایک پولیس والا اور باقی جعلی پولیس والے بھگت رہے ہیں۔