منگل ‘ 8؍ذیقعد 1441 ھ‘ 30؍ جون 2020ء
لاہور میں 6 سالہ بچی اور فیصل آباد میں نوجوان قاتل ڈور کا شکار
خدا جانے یہ قاتلانہ حملے کب ختم ہوں، سڑکوں پر بہنے والے اس خون ناحق کا سلسلہ کب تھمے گا۔ پنجاب کی حکومت بارہا اس سلسلے میں سخت تادیبی کارروائیوں کے اعلان کرچکی ہے مگر یہ قاتل ڈور مافیا ابھی تک آزاد ہے۔ لوگوں کے گلے کاٹ رہی ہے کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ انکے گلے بھی کاٹے جائیں جو اس مذموم کاروبار میں ملوث ہیں۔ پابندی کے باوجود قاتل ڈور بناتے اور فروخت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو پتنگ بازی کے شائقین اس قاتل ڈور کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی معافی کے قابل نہیں۔ اپنے شوق کی خاطر کسی کی جان لینا بھی ناقابل معافی ہے۔ لاہور میں تو اس واقعہ کے بعد اس علاقہ کے ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا ہے مگر کیا اس قسم کی کارروائیوں سے قاتل ڈور مافیا قابو میں آسکے گا ۔جب تک یہ ڈور تیار کرنیوالے اسے فروخت کرنیوالے اور اس سے پتنگ اڑانے والوں کو الٹا لٹکایا نہیں جاتا صرف علاقہ ایس ایچ او کو معطل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ہاں بڑے بڑے واقعات کے بعد بھی کئی پولیس افسر معطل ہوتے ہیں مگر چند روز بعد پھر بحال کرکے انکی ٹرانسفر کردی جاتی ہے۔ حکومت پنجاب اپنی رٹ کو چیلنج کرنیوالے اس مافیا کیخلاف بھرپور کارروائی کرے ورنہ سڑکوں پر اسی طرح نوجوان اور بچے اپنے والدین کے ہاتھوں میں دم توڑتے رہیں گے۔ اس خون ناحق کا سارا وبال حکمرانوں اور انتظامیہ کے سر جائیگا۔ دکھ کی بات بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں ڈرگ مافیا ہو یا لینڈ مافیا اور دیگر مافیاز کی طرح قاتل ڈور مافیا بھی قانون کو خاطر میں نہیں لا رہا اب ان سب کا علاج کرنا ہی ہوگا۔ ان کو کیفرکردار کو پہنچانا ہوگاتب ہی گڈ گورننس کا خواب پورا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭
ایم کیو ایم کو پٹرول کی قیمتوں پر اعتراض ہے تو وفاق سے علیحدہ ہوجائے: سندھ حکومت
اب بھلا ایم کیو ایم کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایسا کڑوا گھونٹ پئے۔ جب صرف ر ولا ڈالنے سے ہی کام چل رہا ہو تو آستین چڑھا کر لڑائی میں کودنے کا کیا فائدہ۔ ایم کیو ایم ویسے ہے بڑی مستقل مزاج جماعت۔ شروع دن سے ہی اسکی پالیسی رہی ہے کہ جماعت کوئی بھی ہو جو بھی وفاق میں حکومت بنائے گی ایم کیو ایم اس میں شامل ضرور ہوتی ہے مگر اسکے ساتھ ہی موقع بے موقع جہاں دائو چلتا ہے اپنے مطالبات کے حق میں جھوٹی ناراضگی ظاہر کرکے ایک دو سخت بیانات دے کر اپنا الو سیدھا کرتی ہے۔ رہی بات کراچی اور حیدرآباد کی جہاں سے ایم کیو ایم ووٹ حاصل کرتی ہے ۔ نہ وہاں کا کوئی مسئلہ ایم کیو ایم والے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ سندھ حکومت اس طرف توجہ دیتی ہے۔ رہی بات وفاق کی تو اسے اپنے مسائل سے فرصت نہیں ملتی وہ بے چارہ کیا کرے۔ بقول شاعر وہاں تو…؎
اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات
اس بنا پر ذکر عالم کیا کریں
والی حالت برقرار رہتی ہے۔ اب پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے احتجاج کو حکومت سندھ نے کچھ زیادہ ہی محسوس کیا ہے جبھی تو مشورہ دیا ہے کہ ایم کیو ایم کو اگر تکلیف ہے تو وہ مرکزی حکومت سے علیحدہ ہوجائے کیونکہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ صوبائی حکومت نہیں کرتی۔اب مشورہ چاہے جیسا بھی ہو ایم کیو ایم نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں وہ بھلا ایسے اہم قومی مسئلہ پر حکومت سے علیحدہ کیوں ہو اس لئے وہ اطمینان سے اوپر سے شور مچا کر اندر خانے مزے لوٹنے کی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہے گی۔
٭٭٭٭٭٭
بھارتی وزیر نے ڈوڈا مقبوضہ کشمیر کا ڈومیسائل بنوا لیا
اور ہم کیا کریں کچھ بھی تو نہ کرسکے صرف دیکھتے رہ گئے جس خطہ پر ہم اپنا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لگتا ہے یہ صرف زبانی کلامی دعویٰ ہے۔ چین ہی سے ہم سبق حاصل کرلیتے تو اچھا تھا۔ اس نے جس علاقہ پر دعویٰ کررکھا ہے وہاں حسب منشا اپنی فوج داخل کرکے اپنی پوزیشن تک بہتر بنالی ہے۔ بھارت کی تمام تر چیخ و پکار معرکہ میں شکست اور فوجیوں کے مارے جانے کے باوجود بھارتی میڈیا جس طرح چین کی ہزیمت کے جھوٹے قصے سنا رہا ہے وہ بے شرمی اور ڈھٹائی کی اعلیٰ مثال ہے۔ عالمی سطح پر کوئی خاص ری ایکشن سامنے نہیں آیا۔ گویا اس وقت عالمی سطح پر بھارت کے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے غیرمستقل ممبر بننے کے باوجود دنیا بھر میں اسکے بارے میں کوئی ہمدردی سامنے نہیں آئی کیونکہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کا جو بہیمانہ قتل عام جاری ہے اس سے انسانی حقوق کے ادارے اور تمام ممالک بھارت سے سخت متنفر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں تو بھارتی اقدامات حد سے بڑھ رہے ہیں وہاںمسلمانوں کی اکثریت کم کرنے کیلئے اب بھارتی ہندوئوں کو وہاں ڈومیسائل تک جاری ہونا شروع ہوگئے۔ ایک بھارتی وزیر کو کشمیر کے ضلع ڈوڈا کا ڈومیسائل جاری ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ جلد ہی لاکھوں ہندوستانی کشمیر کی شہریت حاصل کرلیں گے۔ یوں اگر رائے شماری کبھی ہوئی تو اکثریت کا فیصلہ بدلا جائے گا۔ اگر ہم اب بھی چین کی طرح کوئیک ایکشن نہیں لیتے تو پھر بعد میں سوائے رونے دھونے کے ہمارے پاس ا ور کوئی راہ نہیں بچے گی اس لئے ہمیں کشمیر پر ابھی یا کبھی نہیں کے اصول کے مطابق سخت کارروائی کرنا ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭
اٹلی میں باپ بیٹے پر حملہ کرنے والے ریچھ کو سزائے موت
یہ تو سراسر زیادتی ہے کیونکہ ریچھ ایک بے زبان جانور ہے اس بے چارے کو تو وکیل سے مشورہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ملی ہوگی کیونکہ کوئی بڑے سے بڑا وکیل بھی اس کی بولی سمجھ نہیں سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ریچھ ہی بتا سکتا تھا کہ اس نے باپ بیٹے پر حملہ کرکے انہیں زخمی کیوں کیا۔ حضرت انسان جس طرح اپنی آبادیوں کی خاطر جنگلات کو کاٹ رہا ہے اسکے بعد بتلائیں اس بے چارے جنگلی جانور کے سر چھپانے کیلئے زندہ رہنے کیلئے کون سی جگہ بچی ہے۔ اب ظاہر ہے اس صورتحال میں جب آمنے سامنے کی کیفیت آرہی ہو تو ایسے تصادم ناگزیر ہیں کہیں انسان حملہ کرکے کسی چیتے، ریچھ، ہاتھی، گینڈے کو مارتا ہے تو کہیں یہ وحشی جنگلی جانور بپھر کرانسانوں پر حملہ کرتے ہیں۔ مگر افسوس کوئی اس بات پر کان نہیں دھرتا۔ اب اس ریچھ کو سنے بغیر سزائے موت سے کیا ہوگا۔ اصل مسئلہ تو وہیں رہے گا جنگ تو وہی رہے گی۔ ویسے ہے ناں حیرت کی بات۔ جانور ، انسان پر حملہ کرے تو سزا کے طور پر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ انسان اگر جانوروں پر حملہ کرے تو اسے کوئی سزا نہیں ملتی کوئی نہیں روکتا۔ کیا یہ انصاف کا خون ہے کہ نہیں۔