آڈیٹر جنرل پاکستان کی چشم کشا رپورٹ
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں تیار ہونیوالی پہلی آڈٹ رپورٹ میں وفاقی وزارتوں اور محکموں میں 270‘ ارب روپے کی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے مالی سال 2019-2020ء کی آڈٹ رپورٹ چالیس وفاقی وزارتوں اور محکموں کا آڈٹ کرکے مرتب کی گئی ہے جس میں کرپشن اور جعلی رسیدوں کی مد میں 12‘ ارب 56 کروڑ کی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی گئی جبکہ وفاقی محکموں میں 79‘ ارب 59 کروڑ روپے کے ریکوری کیسز اور آٹھ ارب 89 کروڑ روپے کے انٹرنل کنٹرول کے کیسز اور اسی طرح 152‘ ارب 20 کروڑ روپے کے کمزور مالیاتی مینجمنٹ کے کیسز کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں نے 17‘ ارب 96 کروڑ روپے کا ریکارڈ ہمارے حوالے نہیں کیا اس لئے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر سرکاری اداروں کو اخراجات کرنے سے روکا جائے۔
اگرچہ یہ رپورٹ ابھی قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی میں پیش ہونی ہے جہاں اس کا مفصل جائزہ لے کر کرپشن اور بے ضابطگیوں کے معاملہ میں ذمہ داروں کا تعین کیا جائیگا تاہم یہ رپورٹ اس حوالے سے لمحۂ فکریہ ضرور ہے کہ یہ اس حکومت کے دور کی آڈٹ رپورٹ ہے جس کا ماٹو ہی کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل ہے۔ اس معاملہ میں جہاں وزیراعظم عمران خان کسی کو نہ چھوڑنے کے اعلانات کرتے رہے ہیں وہیں بالخصوص سابقہ حکمران جماعت کے قائدین اور عہدیداران احتساب کے شکنجے میں بھی آئے اور متعدد سزا یافتہ بھی ہوئے۔ اگر اسکے باوجود سرکاری محکموں اور وزارتوں میں کرپشن کا کاروبار اسی طرح دھڑلے سے چل رہا ہے تو اس سے جہاں حکومتی گورننس کا سوال اٹھے گا وہیں بے لاگ اور شفاف احتساب کے دعوئوں پر بھی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ اس سے قبل شوگر انکوائری رپورٹ نے بھی حکومتی گورننس پر کئی سوالات اٹھائے ہیں اس لئے بالخصوص اس وقت جبکہ اپوزیشن متحد ہو کر حکومت کیخلاف مختلف ایشوز پر عوامی تحریک چلانے کی صف بندی کر رہی ہے‘ حکومت کو اپنے کرپشن فری سوسائٹی کے ماٹو پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں کرنی چاہیے اور کرپشن کے تدارک کیلئے اپنی صفوں میں بھی جھاڑو پھیرنا چاہیے۔ بے لاگ احتساب کے عمل پر عوام کا اعتماد اسی طرح قائم کیا جاسکتا ہے۔