پاکستان میں چار مرتبہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل ایوب خاں، جنرل یحیٰی خاں، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاءنافذ کیا۔ فوجی آمروں کے سیاسی تدبر سے خالی فیصلوں اور اقدامات سے ملک دولخت ہو گیا۔ موجودہ پاکستان کی سلامتی کو بھی اندر اور باہر سے کئی خطرات لاحق ہیں جس کے ذمہ دار ملک کے آخری مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز مشرف ہیں۔ یہ واحد فوجی جنرل ہیں جنہوں نے دو دفعہ ملک کے آئین کو پامال کیا پہلے 12 اکتوبر 1999ءکو جب جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر خود بطور چیف اگزیکٹو اقتدار سنبھال لیا۔دوسری مرتبہ جنرل پرویز مشرف نے آئین کی مقدس دستاویز کو اُس وقت پامال کیا جب انہوں نے 3 نومبر 2007ءملک میں ایمرجنسی پلس نافذ کر دی۔ جس کے ذریعے آئین سے ماورا اقدام کر کے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کو فارغ کر دیا گیا۔ ملک کی تاریخ میںیہ واقعہ پہلی دفعہ ہونے جا رہا ہے کہ آئین کو پامال کرنے کے جرم میں کسی فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف ایک منتخب وزیراعظم نے غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں اگر ملک میں کسی فوجی آمر کے خلاف آئین کی پامالی کے جرم میں عدالتی کارروائی کے ذریعے جرم ثابت ہونے پر سزا دے دی جاتی تو ملک میں نیا مارشل لاءلگانا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا۔ اب اگر دیر آید درست آید کے مصداق ایک وزیراعظم نے منتخب آئینی حکومت کا تختہ الٹنے اور 3 نومبر 2007ءکو ملک کی آئینی عدلیہ کے بساط لپیٹنے کے ذمہ دار ایک شخص کو عدلیہ کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو وزیراعظم کو مصلحت کا راستہ اختیار کرنے کے مشورے کیوں دئیے جا رہے ہیں؟۔ وزیراعظم کو انصاف اور قانون کی راہ پر چلنے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔ فوجی آمروں کو آئین شکنی کا بار بار حوصلہ اسی وجہ سے ہوا کہ عدلیہ اور سیاست دان بھی آئین شکنی کے مرتکب جرنیلوں سے ڈر کر مصلحت کا شکار ہو گئے۔ اب وزیراعظم نوازشریف نے جرا¿ت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان قومی اسمبلی میں کر دیا ہے تو انہیں ڈرانے والے بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ ایک کالم نویس نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین اور پاکستان توڑنے کے ذمہ دار جنرل یحیٰی خاں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی لیکن پھر بھی ملک میں تیسرا مارشل لاءلگانے والے جنرل ضیاءالحق نے ملک کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا۔ نوازشریف کا ”جرم“ تو یہ ہے کہ وہ ایک آئین شکن فوجی جنرل کے خلاف قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ نوازشریف خطرناک راستے پر چل پڑے ہیں اور اُن کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کے خلاف اقدام آئین، قانون اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا تو فوج بطور ادارہ اس پر منفی ردعمل کا مظاہرہ کبھی نہیں کرے گی۔ پرویز مشرف نے پہلی دفعہ اپنی نوکری بچانے اور دوسری دفعہ اپنی غیر آئینی صدارت کے تحفظ کے لئے آئین سے ماورا قدم اٹھائے۔ پرویز مشرف کا 12 اکتوبر 1999ءکو مارشل لاءنافذ کرنا اور 3 نومبر 2007ءعدلیہ کے خلاف آئین سے متصادم قدم اٹھانا قطعاً فوج کے ادارے کے مفاد میں نہیں تھا۔ اس لئے پرویز مشرف کے خلاف شفاف عدالتی کارروائی سے قومی اداروں کے درمیان تصادم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وزیراعظم نوازشریف کے نزدیک جب جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کا واحد مقصد آئین کی بالادستی ہے تو پھر کسی ریاستی ادارے کو اس سے کیونکر اختلاف ہو سکتا ہے۔ آئین کی بالادستی سے اگر ملک کے جمہوری ادارے مستحکم ہو جائیں اور آئندہ کے لئے فوجی آمریت کا راستہ بند بھی ہو جائے تو اس سے فوج کے ادارے کا کیا نقصان ہے۔ مارشل لاءاور فوجی آمریت کبھی فوج کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ چند مہم جُو فوجی جرنیلوں کا اقتدار پر قبضے کا کھیل ہے جو مارشل لاﺅں کو جنم دیتا ہے۔ اس کی ذمہ دار فوج نہیں ہوتی۔ اس لئے میری سمجھ سے یہ بالاتر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ پر فوج بطور ادارہ کسی منفی ردعمل کا اظہار کرے گی۔ جو لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ سے اداروں میں تصادم کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ وہ دراصل فوج کی حب الوطنی پر شبہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ فوج کی حب الوطنی بے مثال ہے۔ جب کوئی قدم خالص قومی مفاد میں اٹھایا جائے گا اور عدالتی کارروائی میں انتقام کا کوئی رنگ شامل نہیں ہو گا تو فوج ایسے ہر اقدام کا خیرمقدم کرے گی۔ مارشل لاءنافذ کرنے والے فوجی جنرل خود فوج کے دامن پر بھی ایک داغ ہیں۔ اگر یہ داغ فوج کے دامن سے دُھل جائیں تو فوج بھی عدلیہ اور تاریخ کے فیصلہ پر ممنون ہو گی۔ ایک ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کے بقول فوج کو قانون کا زیادہ پابند ہونا چاہئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024