وفاقی اور پنجاب حکومتوں نے جس طرح بجلی کا بحران حل کرنے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے یہ ان کی اس حوالے سے فکرمندی اور سنجیدگی کا کھلا اظہار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ملک میں بجلی کی ضرورت 17 ہزار میگاواٹ ہو اور پیداوار 12 ہزار میگاواٹ ہو تو ظاہر ہے لوڈشیڈنگ ایسی مجبوری ہے جس سے جان چھڑانا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک 5 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا نہ کرلی جائے گزشتہ پانچ سال کا جائزہ لیا جائے تو زرداری سیٹ اپ نے اس کمی کو پورا کرنے کےلئے عملی اقدامات نہیں کئے اور جو اقدامات رینٹل پاور وغیرہ جیسے منصوبوں کے ذریعہ کئے گئے ان کا مقصد بھی بجلی کی کمی کو پورا کرنا نہیں بلکہ کرپشن تھی جو خود ان کے دور میں ہی بے نقاب ہوگئی جبکہ نندی پور اور چیچو کی ملیاں پراجیکٹ میں این او سی جاری نہ کرنے کے لئے مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی گئیں محض اس لئے کہ یہ بجلی پنجاب میں پیدا ہو رہی تھی جس کی مشینری کراچی کی بندرگاہ پر پڑی پڑی زنگ آلود ہوتی رہی حکومت پنجاب نے اس زیادتی پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو وفاقی وزارت قانون اور وزارت بجلی و پانی نے مختلف تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر کے معاملے کو لٹکائے رکھا ساتھ ہی عوام کو گمراہ کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت اختیارات ملنے کے باوجود پنجاب بجلی پیدا کیوں نہیں کر رہا (ن) لیگ کے وہ تمام وابستگان جو ہر روز کسی نہ کسی ٹی وی ٹاک میں دانشوری کے جوہر دکھا رہے ہوتے اس صورتحال کو واضح کر کے خود اپنے خلاف اس پروپیگنڈہ کو زائل نہ کر سکے۔ بہرحال اگر یہ پراجیکٹ کامیاب ہو جاتے تو ان سے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تو نہ ہوتا البتہ کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہو جاتی۔ اسی طرح نیلم جہلم پراجیکٹ کے نام پر گزشتہ 8 سال سے بجلی کی بلوں میں استعمال شدہ یونٹ کے حساب سے پیسے وصول کئے جا رہے ہیں مگر یہ پیسہ دیگر کاموں میں صرف کر دیا جاتا رہا اور یہ منصوبہ جوں کا توں پڑا رہا اب (ن) لیگ کی حکومت بننے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے نیلم جہلم پراجیکٹ کا دورہ کیا جس پر یہاں کام دوبارہ شروع ہوا ہے لیکن تکمیل میں بہرحال دو تین سال تو لگیں گے اسی طرح نندی پور اور چیچو کی ملیاں پراجیکٹ بھی راتوں رات مکمل نہیں ہوگا۔ اس میں بھی وقت لگے گا اب بجلی کی کمی پر جتنا مرضی شور مچایا جائے احتجاج کئے جائیں یہ ملے گی تب ہی جب اس کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ موجودہ حکومت اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو اس کی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس نے تو آتے ہی اس جانب عملی اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے احتجاجی اعلان کیا ہے کہ اگر مرکز سے بجلی کی جبری بندش کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو پوری اسمبلی اسلام آباد جاکر بیٹھ جائے گی اور اس وقت تک ہم واپس نہیں آئیں گے جب تک ہمیں اپنا حق واپس نہیں مل جاتا اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ لوڈشیڈنگ میں بھی ہمارا حصہ 13 فیصد بنتا ہے مگر اس سے زیادہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے ان کے اس بیان سے صوبے کے عوام اس آگاہی کے بعد لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار وفاقی حکومت سے صوبائی حکومت کے سر پر ان کی ناراضگی کی لٹکی تلوار ضرور ہٹ جائے گی کیا اچھا ہوتا پرویز لوڈشیڈنگ پر احتجاج کی بجائے اس کے مکمل خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنے کا اعلان کرتے جس سے ان کے صوبے سمیت پورے ملک کو لوڈشیڈنگ کی آفت سے نجات ملتی بلکہ ان کے صوبے میں ڈیرہ اسماعیل، بنوں، کرک، میران شاہ وغیرہ کی 24 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی سیراب ہوکر صوبے کو اجناس کی حاصل پیداوار کے حصول کا ذریعہ بنتی۔ کالاباغ ڈیم کی حمایت میں مدتوں سے تحریک چلانے والے راقم کے دوست رحمت خان وردگ نے اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور کو چیلنج کیا کہ کالاباغ ڈیم سے نوشہرہ، مردان اور صوابی کے ڈوبنے کا کوئی امکان نہیں تو انہوں نے کہا ”ہم بھی جانتے ہیں مگر کالاباغ ڈیم کی مخالفت ہماری سیاسی مجبوری ہے“ لیکن یہ تحریک انصاف کی مجبوری نہیں ہے صوبے کے عوام نے اے این پی کا صفایا کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ کالاباغ ڈیم کے مخالف نہیں ہےں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں پاور پراجیکٹ لگائے جائیں گے اور پانچ سال میں ہم پورے ملک کو بجلی فراہم کریں گے ان کا جذبہ لائق تحسین مگر جبکہ کالاباغ ڈیم کے ذریعہ اس سے کہیں کم مدت میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے تو پھر عوام کو پانچ سال انتظار کی سُولی پر لٹکانا اور اذیت میں مبتلا رکھنے کا جواز کیا ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت تحریک انصاف کی کامیابی کا ذریعہ نہیں بنی تھی اس کے برعکس عمران خان کی شہرت کالاباغ ڈیم کے حامیوں میں شمار کی جاتی تھی ایک ایسے وقت میں جبکہ قوم لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ صنعت و تجارت پر منفی اثرات نے بیروزگاری کی پریشان کن صورتحال کو جنم دے رکھا ہے یہ عمران خان کے لئے سنہری موقع ہے کالاباغ ڈیم کی تکمیل کا ذریعہ بن کر قوم کے نجات دہندہ بن جائیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024