جمعۃ المبارک ‘ 19؍ذی الحج‘ 1442ھ‘ 30 ؍جولائی 2021ء
خورشید شاہ ڈیڑھ سال سے ہسپتال میں زیرحراست کیوں ہیں: عدالت
اب کون بتائے کہ حضرت کیا کررہے ہیں وہاں۔ کیا قید تنہائی کا ٹ رہے ہیں یا بیماری کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ بیمار ہیں تو ڈیڑھ سال کا عرصہ علاج کیلئے کم نہیں ہوتا۔ کیا ہسپتال کے ڈاکٹر اتنے گئے گزرے ہیں کہ ان سے شاہ جی کا صحیح طریقے سے علاج نہیں ہورہا یا وہ جان بوجھ کر سوائے کینسر کے کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج زیادہ طویل ہو ۔ ویسے بھی ہسپتال میں رہتے ہوئے اچھے خاصے مریض ڈاکٹروں اور نرسوں کے حسن سلوک کی وجہ سے ازخود ہسپتال سے بھاگنے میں عافیت جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مریض زیادہ دیر ہسپتال میں رکنا نہیں چاہتا مگر شاہ جی ہیںکہ ہسپتال کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ بھائی انسان کو حوصلے والا ہونا چاہئے یا پھر ایسے کام ہی نہ کرے جس میں تھانوں، کچہریوں اور جیلوں کا منہ دیکھنا پڑے۔ اگر ضرورت پڑے تو بہادری سے تمام مشکلات کا اور برے وقت کا مقابلہ کرے۔ یہ نہیں کہ حوالات اور جیلوں کے خوف سے ہسپتال میں گھس بیٹھے اور نکلنے کا نام ہی نہ لے یا اگر نکلے تو بیرون ملک جا بیٹھے۔ ہمارے سیاستدانوں اور اشرافیہ میں یہی کمزوری ہے کہ ’’یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا‘‘ یہ مردانہ وار حالات کا مقابلہ نہیں کرتے اور بیمار ہوجاتے ہیں۔ عدالت نے تو حیران ہوکر سوال کرنا ہی ہے کہ شاہ جی ڈیڑھ برس سے ہسپتال میں کیا کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
سندھ میں سم بند کرنے کی تجویز پر کرونا ویکسین لگوانے والوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں
ہم تو پہلے سے کہہ رہے تھے کہ جناب اگر حکومت باقی صوبوں بھی اس ’’امرت دھارا‘‘ کا استعمال کرے تو بہت جلد معاشرے میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔ کہاں وہ بے اعتنائی کہ بار بار حکومت کی طرف سے اعلانات کے اور منتوں ترلوں کے باوجود لوگ ویکسین لگوانے کیلئے تیار نہیں ہورہے تھے کہاں سم بند کرنے کی تجویز کے ساتھ ہی ایکسپو سنٹر کے باہر اتنی طویل قطاریں لگ گئی ہیں کہ یقین نہیں آرہا یہ وہی بے پرواہ قوم ہے جو موت سے بھی نہیں ڈرتی مگر سم بند ہونے کے خوف سے ادھ موئی ہورہی ہے اور دھڑا دھڑ ویکسین لگوانے پہنچ رہی ہے۔ گویا ان کی سانسیں سم کے ساتھ اٹکی ہوئی ہیں۔ اس تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہمارے عقل مند حکمران پورے ملک میں سم کی بندش کو ہر سزا کا حصہ بنا دیں تو ہمارے ہاں جرائم کی رفتار میں خاصی کمی آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر فوری طور پر صرف ٹریفک اشاروں اور قوانین کی خلاف ورزی پر اگر جرمانے کے ساتھ سم بند کرنے کی سزا بھی شامل کردی جائے تو یہ ’’میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال‘‘ کی رفتار سے اشارہ توڑنے گاڑیاں چلانے والے سرکس کے ڈرائیور بننے کے شوقین نوجوان خودبخود دیکھیں کس طرح لائن پر آتے ہیں کیونکہ ان سب کی جان سم نامی طوطے میں ہے جو ان کے موبائل والے پنجرے میں قید ہے جس کی گردن دبوچنے کے خوف نے سب کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اس کے ساتھ ایک یا دو سے زیادہ سمیں رکھنے والوں کی باقی سمیں بلاک کرنے سے بھی بہت سے غیرقانونی دھندے ختم ہوسکتے ہیں۔ معاشرے کو سدھارنے کیلئے ایسے اقدامات ظلم نہیں ثواب کے زمرے میں آتے ہیں۔
٭٭٭٭
ریلوے ٹکٹ پر اضافی ڈیم فنڈ کی کٹوتی ختم کردی گئی
بڑا احسان کیا ہے وزیر ریلوے نے مسافروں پر اتنی بڑی رقم لینا بند کرکے۔ یہ ڈیم فنڈ تھا کتنا اکانومی کلاس کیلئے ایک روپے اور اے سی کلاس والوں کیلئے 10 روپے مگر چلیں درست ہوا ورنہ ہماری سڑکوں پر بنے پل آج تک اپنے پر سے گزرنے والوں سے ٹیکس لے رہے ہیں کئی پل تو اپنی مدت حیات بھی پوری کرچکے ہیں‘ اپنے پر آئے خرچ سے زیادہ وصول کرچکے ہیں۔ پہلے جب مشرقی اور مغربی پاکستان ایک تھے تو سیلاب فنڈ سے جان نہیں چھوٹتی تھی اب ڈیم فنڈز سے بچنا مشکل ہوگیا ہے۔ کیا ہمارے وزیر ریلوے یہ بتانا پسند کریں گے ڈیم فنڈ اب تک کتنا لیا گیا اور یہ کہاں خرچ ہوا ہے۔ یہ اربوں کا معاملہ ہے اس کا حساب کتاب مانگنا عوام کا حق ہے کہ کتنی رقم آئی اور کہاں گئی۔ 72 برس بیت گئے پاکستان کو بنے ہوئے بھارت میں آج بھی ریلوے ایک بہترین منافع بخش ادارہ ہے جہاں روزانہ لاکھوں نہیں کروڑ سے بھی زیادہ افراد ٹرین میں سفر کرتے ہیں۔ پورے ملک میںریلوے کا جال بچھا ہوا ہے۔ ہماری بے پروائی کی وجہ سے لوگ ریلوے کی پٹڑی ،انجن اور ڈبے تک کھا گئے، بیسیوں سٹیشن بند ہوگئے، درجنوں ٹرینیں بند ہوگئیں، ہزاروں مال گاڑی کے ڈبے اور مسافر بوگیاں سکریپ بن گئی ہیں مگر ہر حکومت ریلوے کے خسارے کا رونا روتی ہے۔ اب یہاں بھی کوئی لالو پرشاد جیسا ریلوے سے محبت کرنے والا اسے بام عروج تک لے جانے والا وزیر آئے تو شاید ریلوے کی قسمت بدل جائے، اس کے دن پھر جائیں…
٭٭٭٭
وزیراعظم کو سمجھ آگئی ہوگی کہ زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے: سعید غنی
گزشتہ دنوں سندھ میں بارشوں کی وجہ سے جو حالات خراب ہوئے اس پر بلاول بھٹو کے بیان بارش ہوتی ہے تو پانی بھی آتا ہے پر پی ٹی آئی والوں نے خوب تماشہ لگایا ۔ اب گزشتہ روز اسلام آباد جیسے جدید شہر میں بارش نے جو قیامت ڈھائی وہ سب کے سامنے ہے۔ سیلاب کے منہ زور پانی میں گاڑیاں خس و خاشاک کی طرح بہہ رہی تھیں۔ اسلام آباد میں سیلاب کے اس منظر پر پی پی والوں کو بھی موقع مل گیا کہ وہ حکمران طبقے کو ان کے مذاق کا جواب دیں۔ اب سندھ کے وزیر تعلیم نے براہ راست وزیراعظم پر جملہ کستے ہوئے کہا کہ اب وزیراعظم کو سمجھ آگیا ہوگا کہ جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ اس کا جواب تو پی ٹی آئی کے کھلاڑی ہی دیں گے۔ تاہم اگر کوئی غلطی سے وزیر تعلیم سندھ سے پوچھ بیٹھا کہ جناب سندھ میں خاص طور پر جب امتحان آتا ہے تو نقل بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے تو کیا اس کا علاج ان کے پاس ہے۔ اگر نہیں تو پھر مان لیں کہ بارش کے بعد سیلاب کا علاج بھی کسی کے پاس نہیں کیونکہ ہم نے نکاسی آب کے تمام تر راستے تو تجاوزات بنا کر ختم کردیئے ہیں اس لئے اب ہمارے پاس سوائے افسوس کرنے کے اور کچھ بھی نہیں رہتا۔ سو وہ سب کررہے ہیں مگر افسوس کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ہمیں صرف اسلام آباد سے نہیں ہر شہر اور گائوں میں نکاسی آب کا نظام بہتر بنانا ہوگا ورنہ ہر سال ہم سیلاب کے ہاتھوں تباہی کا ماتم کرتے رہیں گے۔ اب ذرا تیار رہیں دریائے چناب میں سیلاب کا ایک بڑا ریلا مقبوضہ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہورہا ہے وہ کیا تباہی مچاتا ہے چند روز میں سامنے آنے والا ہے…
٭٭٭٭