افغانستان میں امن: گیند اشرف غنی انتظامیہ کی کورٹ میں
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان میں بھی سول وار کا خدشہ ہے۔ امریکی نیوز پروگرام پی بی ایس نیوز آور میں انٹرویو کی مزید تفصیلات کے مطابق
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 10 ہزار جنگجو افغانستان بھیجنے کا الزام احمقانہ ہے۔ غنی حکومت اس حوالے سے ثبوت دے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں، افغانستان پہلے اپنے مہاجرین کو واپس لے پھر پاکستان سے جواب طلبی کرے۔ جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ نیٹو فورسز تھیں تو اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں تھے۔ امریکہ اور نیٹو فورسز کے پاس اب سودے بازی کی طاقت نہیں رہی کیونکہ اب طالبان کو سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہے۔ وہ خود کو فاتح سمجھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے کہ افغانستان کے سیاسی حل کے لیے دباؤ ڈالیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان کی خانہ جنگی پاکستان میں بھی داخل ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین پہلے سے موجود ہیں۔ اس صورت حال کے بعد مزید لاکھوں آجائیں گے۔
پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان براہ راست مذاکرات پرآمادہ ہوئے اور ان کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے مئی 2021 تک افغانستان سے انخلاء کرنا اور طالبان کے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے معاملات طے پائے تھے۔ طالبان نے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور داعش و القاعدہ کے ساتھ رابطے نہ رکھنے کا یقین دلایا تھا۔ مذاکرات اور امن معاہدے کی اشرف غنی انتظامیہ نے شدید مخالفت کی۔ اس کی طرف سے امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی ہرممکن کوشش بلکہ سازشیں تک کی گئیں ۔ صدر اشرف غنی، وزیر خارجہ امر صالح اور قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب آج بھی پاکستان کیخلاف اسی وجہ سے زہر اگلتے ہیں۔ جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے اور بے ہودہ و بے بنیاد الزام لگاتے ہیں۔ وہ طالبان کو کسی طور اقتدار میں حصہ دار بنانے پر تیار نہیں ۔ اپنے اقتدار کی خاطر وہ امریکہ پر افغانستان میں موجود رہنے کیلئے زور دیتے رہے۔ ایسے میں طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے تھے ۔ اب امریکہ انخلاء کی تکمیل کے قریب ہے تو طالبان افغانستان کے نوے فیصد علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں ۔جس فوجی قوت کے بل بوتے پر اشرف غنی حکومت طالبان کا مقابلہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کے کئی ’’سپوت‘‘ طالبان کے ساتھ مل گئے۔ کچھ ازبکستان کی سرحد عبور کرگئے جبکہ پاکستان آنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکہ کی طرف سے معاملات اشرف غنی حکومت کی صوابدید پر چھوڑنا بہت بڑی غلطی تھی۔
انٹرا افغان مذاکرات امریکہ کی چھتری تلے ہوتے تو یقیناً کامیاب ہوتے۔ اُس وقت طالبان کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر عمل پیرا ہوسکتے تھے۔ اب وہ اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ اپنی شرائط پر معاملات آگے بڑھائیں گے۔ ان کی طرف سے اقتدار میں آنے کا اتنا یقین ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر رابطے کررہے اور افغانستان کو پرامن بنانے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔ ملا عبدالغنی برادرکی سربراہی میں طالبان وفد نے چین کا دورہ کیا اور چینی قیادت کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی کے بھی خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ادھر اشرف غنی حکومت طالبان کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے تمام وسائل استعمال کررہی ہے۔ طالبان کے مضبوط ٹھکانوں پر ہوائی حملے جاری ہیں۔ ان میں گزشتہ روز 19 جنگجو ہلاک ہوگئے۔ افغانستان میں امن کی بحالی کی امید یں دم توڑ رہی ہیں، حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ خانہ جنگی کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔ جس کے اثرات یقیناً پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔ پاکستان میں پہلے سے ہی 30 لاکھ مہاجرین موجود ہیں۔ مہاجرین کے بھیس میں ان میں دہشت گرد اور بھارت کیلئے جاسوسی کرنے والے بھی موجود ہیں۔ پاکستان مزید مہاجرین کابوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان نے سرحد سے آر پار دہشت گردوں کی نقل و حمل روکنے کیلئے افغان اور ایران بارڈر پر باڑ کی تنصیب کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ 90 فیصد مکمل ہوچکی ہے۔ سرحد پر لگائی گئی باڑ سردست افغانیوں کا ممکنہ سیلاب بلاخیر روکنے کے کام آئے گی۔
حالیہ دنوں طالبان اور افغان حکومت کے مابین دوحہ میں مذاکرات ہوئے گویا دونوں میں رابطے موجود ہیں۔ اشرف غنی کی طرف سے ایک بار پھر طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے جبکہ طالبان کی طرف سے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ سامنے آیا ہے جو کسی مستقل سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل کا فیصلہ کرے۔ ان کی طرف سے کہا گیا کہ ایسا سیٹ اپ بنتا ہے تو وہ ہتھیار رکھ دیں گے۔ افغانستان کے امن کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے یہ مناسب تجویز ہے جس کی آڑ میںاشرف غنی حکومت کے ہر صورت اقتدار سے چمٹے رہنے کی حرص آسکتی ہے۔ امریکہ اور نیٹو ممالک طالبان سے اب شرائط منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں البتہ اشرف غنی کا اقتدار امریکہ ہی کے مرہون منت ہے۔ وہ اسے عبوری سیٹ اپ کے قیام پر مجبور کرسکتا ہے۔
افغانستان میں طاقت کے استعمال سے پہلے کوئی مسئلہ حل ہوا ہے نہ اب ہوگا۔ طاقت کوئی بھی استعمال کرے امریکہ، افغان انتظامیہ یا طالبان، نتیجہ امن کی مزید بربادی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ طالبان نے خود ہی وہ تجویز پیش کردی جو افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے ممدو معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اشرف غنی اور ان کے ساتھی ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچیں تو وہ بھی عبوری سیٹ اپ کی تشکیل میں ہی امن کی بحالی کو ممکن پائیں گے۔ پاکستان کیلئے یقیناً اپنے مفادات مقدم ہیں لہٰذا کسی بھی قسم کی ممکنہ صورتحال سے نبردآزما ہونے کی مکمل تیاری کررکھنی ہوگی۔