دوہر ا معیار زندگی؟
حج ، عید قرباں گزری محرم الحرام شروع ہونے کو ہے،سرکاری تعطیلات کے بعد سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹیوں پر ناخوش ناخوش سے واپس آئے شاید حکومت نے سرکاری ملازمین کے چھٹیوں کے لمبے پلان کو ڈسٹرب کر کے جمعہ کو ڈیوٹی پر بلا کر ان کی خوشیوںکو کبھی خوشی کبھی غم میں تبدیل کردیا تھا ہوشربا ء مہنگائی نے سرکاری ملازمین سمیت ہر شخص کو پریشان کررکھا ہے مگر ہر قسم کے حالات میں کچھ اشرافیہ کی دولت ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے انہیں دولت اکھٹی کرنے کے دو ہاتھ کم لگتے ہیں اور اسے رکھنے کے لیے تجوریوں کی تعداد کم پڑتی جارہی مگر نئے زمانہ کے ساتھ ساتھ بیرون ملک تجوریاں مل جاتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دولت رکھنے والوں سے ان کے سورس آف انکم کو نہیں پوچھا جاتا یعنی ایسی اشرافیہ کو ٹائی ٹینک ڈوبنے کی کوئی فکر نہیں کیونکہ ان کی ترجیحات مفادات اور منزلیں کچھ اور ہیں جن کا پاکستان کے عوام اور مسائل سے کوئی تعلق نہیں ، عوام کی خیر خواہ جمہوری حکومت نے پٹرول 120روپے فی لیٹر تک پہنچا دیا ہے ملک کے مسائل کوسمجھنے اور ان کو حل کرنے کے دعویداروںکوکچھ نظر نہیں آتا جبکہ ملک کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ پٹرول وہ چیز ہے جس کے بڑھنے سے ٹرانسپورٹرز کے کرایوں سے لیکر ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا مہنگائی کا ایک طوفان ایک سمندر آجاتا ہے جسے حکومت کے مہنگائی کم کرنے کے منصوبہ جات کے تحت مہنگائی کو قطرہ قطرہ کم کرنے کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں اب سوال ہے کہ مہنگائی کے سمندر کو قطرہ قطرہ کرکے کم کیا جاسکتا ہے؟پاکستان کی تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من شمس ہے کہ ایک بار بڑھنے والی مہنگائی یا کوئی چیز کبھی کم نہیں ہوتی،اپنے اصل سے ہٹ جانے والی قومیں ہمیشہ تنزل کا شکار ہوجاتی ہیں، علم عمرانیات اور تاریخ سے ثابت ہے کہ چالیس چالیس سال کے چار سرکل یعنی 160 سال کے بعدکوئی بھی قوم عروج سے زوال اور زوال سے عروج تک پہنچ جاتی ہے مگر اس کے لیے اسکی درست منزل کا تعین اور قربانیاں دینے کا حوصلہ ہونا چاہیے،کسی بھی عمل تغیر میں کوئی ایک چیز نہیں بلکہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں کسی ایک وجہ کو عمل تغیر کی کلیدی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ،بات قربانی کی ہورہی ہے تو اسلامی آخری مہینہ حج کا ہے جس میں جانوروں کی قربانی دیکر سنت ابرہمی کی لازوال قربانی کی یاد کو تازہ کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے جس میں دین اسلام اپنے نانا حضورپاک کے دین کو زندہ رکھنے کے لیے حضرت امام حسین نے ساتھیوں کے ہمراہ اپنی جانوں کی قربانی دی یوں آل رسول نے جان تو دے دی لیکن دین اسلام کو بچالیا حق او سچ کو جھوٹ میں بدلنے نہیں دیا گیا،یزید جیت کر بھی ہار گیا ۔عوام اور عوامی مسائل کی طرف آتے ہیں، غریب اور متوسط طبقہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ملک کی عدم ترقی یا ترقی کی رفتار میں سستی کی ایک وجہ ہمارا نظام تعلیم ہے جو عملی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا ایک ملک میں کئی طرح کا نظام تعلیم موجود ہے قومی زبان کہنے کو تو اردو ہے مگر اشرافیہ نے اردو کو دفتروں اور دیگر نظام چلانے کے لیے استعمال کرنے سے گریز ہی کیا ہے بلکہ اسکی رہ میں روڑے ہی اٹکائے ہیں کیونکہ اگر سب کو سب کچھ سمجھ آگیا تو کسی کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکے گا اور کوئی سیاہ کوسفید جھوٹ کوسچ نہیں بناسکے گا فرائض کے ساتھ حقوق کی بات کی جائے گی احتساب ہوگا سوال ہوگیں سب برابر ہوں گے اشرافیہ کبھی نہیں چاہتی کہ کام کرنے والے کمی کمین کا لڑکا ساتھ والی سیٹ پربیٹھ کر برابری کا دعویٰ کرے جب تک طبقات کا فرق موجود ہے امیر غریب کا فرق موجود رہے گا بلکہ بڑھے گا اسلام کے سنہری اصولوں قرآن وسنت پر عمل اسکی روح کے مطابق عمل کرکے ہم ایسی مشکلات پر قابوں پاسکتے ہیں مگر افسوس کہ ہم بات تو اسلام کی کرتے ہیں خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں مگر عمل میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں یہی ہمار ا دہرا معیار زندگی ، چہرے اور دل کے دو رخ مسائل اور مشکلات کی ایسی بلندو بالا دیواریں ہیں جنہیں ہم کوشش کے باوجود گرانے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ ہم اپنی اصل سے ہٹ چکے ہیں ، کسی درخت کی شاخ اس وقت تک مضبوط ہوتی ہے جب تک وہ تنے سے جڑی رہے درخت سے علیحدہ ہونے کے بعد سرسبز شاخ خشک جاتی ہے جسے کوئی بھی آسانی سے تھوڑ سکتا ہے۔