کنوں حال سناواں دل دا
عید گزرے ابھی ایک ہی دن ہوا تھا وہ مجھے ملنے آ گیا عید کیسی گزری ھم نے پوچھ لیا …اس نے گہری نظروں سے دیکھا اور بولا پانچ ہزار سے عید نہیں گزرتی … بس کچھ رو کے اور کچھ سو کر گزار دی ۔ یار میں تو بچوں کی عیدی دے ھی دی تھی …آپ کی بات نہیں ھے جہاں جہاں کام کرتا ھوں وہاں سے پیسے نہیں ملے دوستوں سے ادھار مانگ لیے … دونوں تینوں دوستوں نے ھاں کہہ دیا مگر عید گزر گئی نہ ان میں سے کسی کا فون آیا اور نہ ھی پیسے آئے بندہ بچوں کی خواہش کیا پوری کرے یہاں ضرورتیں پوری نہیں ھو رہیں … اب اس کی کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی تھی وہ مجھے بہت غور سے دیکھ رہا تھا یار یہ جو دوست لارا لگا دیتے ہیں بہت برا کرتے ہیں نہیں دینے صاف نہ کر دو اس عید پر تو کتنے ھی دوستوں کو تنخواہ نہیں ملی …یار تم ان دوستوں کو دوبارہ فون کر لیتے … بہت فون کیے … وٹس ایپ پر مجبوری بتائی وہ ٹس سے مس نہیں ھوے … بس پھر فون نہیں کیا انسان کتنا اپنی خوداری کا خون کرے لیکن دکھ ضرور ھے کہ دوستوں کو لارے میں نہیں رکھنا چاہیے … میرا خیال ھے آجروں اور سرکار کو چاہیے وہ ایسے وقت میں کچھ تو فراغدلی کا مظاہرہ کیا کریں کیا فائدہ ان کے اونٹ ، بکروں اور دنبوں کی قربانی کا یہ سب تو دکھاوے کی باتیں ہیںمیرے دوست کے دوستو لارا لپا نہ لگایا کرو اور خاص طور پر ان سفید پوش دوستوں کو جنھوں نے عزت بچانی ھو عزت بنانی ھو اور اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ھو یہ جو لارے کی سولی ھے نہ اس پر لٹکا انسان نہ مرتا ھے نہ جیتا ھے خدا کے لیے اسے صاف ناں کر دو وہ مرنے سے بچ جاتا ھے ۔
اسی دکھ میں بیٹھے گھتیاں سلجھانے کی فکر میں تھے کہ من پسند قلم کار کا ایک کالم سامنے آگیا میرے گھر کے کتابوں والے کمرے میں 2010 کی ایک تصویر ھے جس میں جناب تری دیو رائی ، جناب افتخار عارف ، جناب محمود صاحب کے ھمراہ ھم بھی ہیں وہ پی ٹی وی ہوم کے ایک پروگرام " دیدہ ور " ھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے جنم دن کی نشریات کے حوالے تھا یہ لاہیو ٹرانسمیشن تھی اور اٹھائیس گھنٹے کی تھی اس کا سکرپٹ ھم لکھ لکھ کر دے رہے تھے اس کے پروڈیوسر انیق الرحمان تھے دھیمے مزاج کے صاف گو قلم کار اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ " وزرائے اعظم کے خاندانوں کا معاشی عروج تو ہم نے بہت دیکھا ہے۔ سابق وزرائے اعظم معزول ہونے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ پْرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر میں ان کی رہائش گاہیں تو ہوتی ہی ہیں۔دبئی، لندن، واشنگٹن میں بھی ان کے بڑے بڑے بنگلے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے اس قوم پر بہت احسانات ہیں۔ ایک نوزائیدہ ملک کو سنبھالنا، کشمیر میں آزادی کی جنگ کے نتیجے میں موجودہ آزاد کشمیر کا حصول پھر پاکستان کے دفاع کے لئے بی آر بی نہر کی تعمیر۔ان کے لاڈلے بیٹے اشرف لیاقت کچھ عرصہ پہلے سرطان سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کا علاج بھی بہتر طریقے سے نہیں ہو سکا تھا۔ دوسرے پیارے بیٹے 80سالہ اکبر لیاقت گردے کے امراض میں مبتلا ہیں۔ ہفتے میں ان کے تین ڈائیلاسز ہو رہے ہیں۔ ان کی عزیز بیٹیاں بہت مشکل سے علاج کے اخراجات برداشت کررہی ہیں۔ اکبر لیاقت نے کبھی اپنے عظیم والد کے حوالے سے اس ملک سے کچھ ناجائز اور غیرقانونی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔اکبر لیاقت کو ذوالفقار علی بھٹو نے 1977کے انتخابات میں ان کے والد کے نام سے موسوم لیاقت آباد میں پی پی کا ٹکٹ دیا تھا مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے سیاست میں کبھی حصّہ نہیں لیا۔ بینظیر بھٹو نے بھی پیشکش کی مگر آج کی سیاست پیسہ مانگتی ہے۔ اْردو زبان کے حوالے سے انہیں جب لسانی سیاست میں شرکت کی دعوت دی گئی تو انہوں نے انکار کیا تھا۔ ان کی بیگم لیاقت ان دنوں ان کی دیکھ بھال کررہی ہیں۔ انہیں اپنی والدہ کے گھر لے آئی ہیں۔ وہ پورے پاکستان کے ایک وزیر خارجہ حمید الحق چوہدری کے بھائی کی نواسی ہیں۔ آئی لینڈ میں ان کا اپنا فلیٹ فروخت ہو چکا ہے۔
اکبر لیاقت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ مل ہل اسکول انگلینڈ، کنگز کالج لندن سے فارغ التحصیل ہیں۔میں بھی ان حالات سے بیخبر تھا۔ پنڈی سے ایک انتہائی درد مند بزرگ پاکستانی ضیاء الدین صاحب نے اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ اب وہ بغیر سہارے کے نہیں چل سکتے ہیں۔ بہت پہلے
ملک ریاض نے ان کے علاج کے سلسلے میں ایک بار خطیر رقم کی ادائیگی کی تھی۔ اہلِ خانہ ان کے ممنون ہیں صاحب کالم نے سندھ حکومت ، وزیراعظم اور صدر پاکستان عارف علوی جو خود کراچی سے تعلق رکھتے ہیں ان سے کہا ھیے وہ کسی وقت اکبر میاں کی عیادت کے لئے ڈیفنس میں ان کے گھر تشریف لے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی مزاج پرسی کرنی چاہئے۔ وفاقی حکومت ڈاکٹروں کا ایک پینل تشکیل دے سکتی ہے جو یہ طے کرے کہ کیا اکبر صاحب کے گردوں کا ٹرانسپلانٹ ممکن ہے یا اور کوئی تدابیر جن سے ان کو راحت مل سکے۔عام پاکستانی بھی ان کو خوبصورت گلدستے پہنچا سکتے ہیں جس سے ان کو تسکین پہنچے کہ پاکستان والے پاکستان کے پہلے خوددار، ایماندار وزیراعظم کے اہلِ خاندان کو فراموش نہیں کر چکے ہیں۔چھوٹا منہ بڑی بات کرنے کی جسارت کرنے کے لیے ہمیں عامر سید کا سہارا لینا پڑ رہا ھیے ۔ کیونکہ ایک ویڈیو لاھور کے ایک فوٹو گرافر کی دیکھی یہ فرقان شاکر ھیے جولاہور کے اخبار میں ملازم تھا۔ فرقان شاکر کی بیوی رو رو کر بتا رھی ھیے کہ ایک ایکسیڈنٹ میں سر میں چوٹ لگنے سے وہ زہنی توازن کھو چکا ھے گھر میں غریبی اور تنگ دستی کا راج ھے وہ مدد کی طلبگار ھے ۔عامر صاحب کے بقول ھم اپنی اپنی مدد آپ کے تحت فرقان شاکر ایک فنڈ جمع کر رہے ھیں لیکن میرے خیال میں یہ کام لاھور یونین آف جرنلسٹ کا ھے ۔ سب سے ضروری بات یہ ھے کہ آپ کالم نگار محمود صاحب سے گزارش کریں کہ کا کوئی شخص پوچھنے بھی نہیں گیا!!