وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ "ان کے پاس کھیلوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ بہت سے دیگر مسائل ہیں افغانستان کی کرکٹ ٹیم میں جتنی بہتری آئی ہے کسی دوسری ٹیم میں نہیں آئی"۔یہ بیان اس وزیراعظم کی طرف سے سامنے آیا ہے جو حکومت میں آنے سے قبل اس ملک کے نوجوان کھلاڑیوں کی سب سے بڑی امید تھے۔ عمران خان صرف ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں ہیں بلکہ وہ ایک کامیاب کرکٹر اور کپتان ہیں۔ دنیائے کرکٹ میں ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب تک وہ اپوزیشن میں تھے کرکٹ کو بھی ٹھیک کرنے کی بات کرتے تھے ایک کرکٹر ہونے کی وجہ سے دیگر کھیلوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو بھی ان سے بہت امیدیں تھیں۔ ملک کا نوجوان کھلاڑی یہ سمجھتا تھا کہ عمران خان حکومت میں آئے تو کھیل اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دی جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔
عمران خان کے دور حکومت میں کھیلوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے حتیٰ کہ ملک کا مقبول ترین کھیل کرکٹ بھی زوال کا شکار ہے۔ کرکٹرز کے لیے کھیل کے مواقع کم ہوئے ہیں اور کھلاڑی معمولی ملازمتوں پر مجبور ہیں۔ قومی کھیل سمیت دیگر کھیلوں کی حالت تو قابلِ رحم ہے۔ اب حکومت میں تین سال گذارنے کے بعد وزیراعظم نے کہا ہے کہ ان کے پاس کھیلوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ اس بیان نے کھلاڑیوں کے خواب چکنا چور کر دیے ہیں، کھلاڑیوں کی امیدیں ٹوٹ گئی ہیں۔ اب تک تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ نچلی سطح پر کوئی کچھ کرنا نہیں چاہتا یا پھر اوپر سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلسل ناکامیوں اور نظام میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تو اس میں وزیراعظم عمران خان کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن اب حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ وزیراعظم نے خود بتا دیا ہے کہ ان کے پاس سپورٹس کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان پاکستان میں کھیلوں کی موجودہ صورت حال بیان کرنے، کھیلوں پر صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی توجہ کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر ملک کے وزیر اعظم کے پاس وقت نہیں تو پھر اور لوگوں کو کھیلوں کی کیا ضرورت ہے۔ یہی رویہ ہمیں نیچے سے اوپر تک نظر آ رہا ہے۔ کھلاڑیوں کے مسائل میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
اولمپکس میں پاکستان کی حالت سب کے سامنے ہے، بری طرح پٹ رہے ہیں، قومی کھیل ہاکی کا برا حال ہے شاید کھلاڑیوں کو بھی یاد نہ ہو کہ انہوں نے آخری بین الاقوامی میچ کب کھیلا ہے، شاید چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کو بھی تیس کھلاڑیوں کے نام یاد نہ ہوں۔ ہر کھیل میں ہر سطح پر صرف مایوسی ہی نظر آتی ہے ان حالات میں وزیراعظم کا یہ بیان کھلاڑیوں کو کھیل کے میدانوں سے دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ پہلے ہی کھیلوں کی تنظیمیں اور سرکاری ادارے کھلاڑیوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں اب وہ اور بے رحم ہو جائیں گے۔ کھیلوں کی اہمیت کیا ہے یہ تو ہمارے وزیراعظم بہتر جانتے ہیں لیکن کھلاڑیوں کو اس بیان سے سخت دھچکا لگا ہے۔ دیگر مسائل کو اہمیت دینا اور اس دوران کھیلوں کو نظر انداز کرنا درحقیقت صحت مند معاشرے کی تشکیل کو نظر انداز کرنا ہے، پاکستان میں تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں کھیلیں ناصرف بہت بڑی تفریح ہیں بلکہ سپورٹس کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دے کر ہم اپنی نوجوان نسل کو منفی سرگرمیوں سے بچا سکتے ہیں، کھلاڑی قوم کے سفیر ہوتے ہیں ہم سپورٹس پر توجہ نہ دے کر اپنے سفیروں کے لیے مواقع محدود کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کرکٹ میں افغانستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں جتنی بہتری آئی ہے کسی اور جگہ نہیں آئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان نے تو حالت جنگ میں بھی ترقی کی ہے، وہ حالت جنگ میں بھی کرکٹ کو نہیں بھولے اور ہم تو اچھے بھلے ہیں، ملک میں پاکستان سپر لیگ کے مقابلے ہو رہے ہیں، ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کھیلی جا رہی ہے، ڈیوس کپ کے مقابلے ہو رہے ہیں، اچھی سکواش بھی کھیلی جا رہی ہے پھر بھی ہم سپورٹس کے لیے وقت نہ نکال پائیں اور افغانستان کی تعریف کریں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں افغانستان سے بھی پیچھے ہیں یا ہمیں افغانستان سے سیکھنے کی ضرورت ہے؟؟؟؟
دنیا کھیلوں میں تحقیق اور سرمایہ خرچ کر کے ترقی کر رہی ہے اور ہم ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ کھیلوں کے لیے وقت کیسے نکالنا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024