میاں محمد اظہر پاکستان کے دل لاہور کی سیاست کے مرکزی کردار رہے ہیں۔ 1987ء تا 1991ء لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر جبکہ 1990ء تا 1992ء گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز رہے۔ میئر لاہور کی حیثیت سے ان کی خدمات بالخصوص شہر کو تجاوزات سے پاک کرنے کی کامیاب مہم اب بھی اہلیان لاہور کو یاد ہیں جبکہ گورنر پنجاب کی حیثیت سے ان کا دور اس لحاظ سے یادگار ہے کہ انہوں نے گورنر ہائوس جو عام لوگوں کے لیے ایک طرح سے ’’نوگو ایریا‘‘ تھا‘ سکولوں کے طلبا و طالبات کے لیے کھول دیا۔ روزانہ سینکڑوں بچے اس پُر شکوہ عمارت کی سیاحت سے لطف اندوز ہوتے تھے اور گورنر پنجاب کے حق میں دعا کرتے تھے۔
میاں محمد اظہر نے پاکستان کی سیاست کے اتار چڑھائو کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا اور بعض اوقات اس میں ان کا کردار کلیدی رہا۔ اس تناظر میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے انہیں دعوت دی کہ وہ ایوانِ قائداعظمؒ، جوہر ٹائون، لاہور میں منعقد ہونے والے ’’ایوان قائداعظمؒ فورم‘‘ کے دوسرے اجلاس میں بطور مہمانِ خاص اور کلیدی مقرر تشریف لائیں اور اپنے وسیع سیاسی تجربے کی بناء پر ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ اور مستقبل کے امکانات‘‘ جیسے اہم موضوع پر اظہار خیال کریں۔ چنانچہ گزشتہ روز مذکورہ نشست میں ان کے خیالات سے استفادہ کے لیے خواتین و حضرات اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد ایوانِ قائداعظمؒ میں موجود تھی۔ انہوں نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی انتظامیہ کو بانیٔ پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر ایوانِ قائداعظمؒ تعمیر کرنے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ جدوجہد آزادی کے دور سے کیا جانا چاہیے۔تحریک پاکستان کوئی عام تحریک نہ تھی بلکہ اس کی بدولت دنیا کے کئی دیگر خطوں میں بھی سامراجی تسلط زوال پذیر ہوا۔ انڈونیشیا، سری لنکا، لیبیا اور چین میں جاری آزادی کی تحریکوں کو تحریک پاکستان سے ہی تقویت حاصل ہوئی اور وہ آزادی سے بہرہ مند ہوئے۔باالفاظ دیگر یہ تحریک صرف برصغیر تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کے بیرونِ برصغیر بھی دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور نواب زادہ لیاقت علی خان جیسے بے لوث اور قوم کی خاطر اپنے ذاتی مفادات قربان کر دینے والے عظیم رہنمائوں کے طفیل ہمیں آزادی حاصل ہوئی۔ جہاں تک پاکستان کی موجودہ سیاست کا تعلق ہے‘ اس میں کامیابی کے لئے مالی وسائل کا ہونا لازمی ہے۔ اس وقت ہمیں سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری اقدار کو پروان چڑھائیں اور متحد ہو کر ملک کو اقتصادی لحاظ سے مضبوط بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وطن عزیز کی سیاست کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان کے بارے میں زمینی حقائق کا ادراک حاصل کیا جائے۔ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں میچوریٹی برائے نام بھی موجود نہیں ہے۔ ہماری سیاسی روایات باعثِ عزت نہیں ہیں۔ ہماری سیاست ہائوس آف کارڈز یا ریت کے گھروندے کی مانند ہے۔ اگر اس کے تئیں بہت احتیاط برتی جائے اور کسی قسم کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو یہ قائم رہتی ہے وگرنہ ہوا کے معمولی تھپیڑے کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ہماری حزب اختلاف کی جماعتیں یوں تو برطانیہ جیسی سیاسی فضا کا تقاضا کرتی ہیں لیکن جب حکومت میں ہوں تو حزب اختلاف کو کوئی ایسی رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہوتیں جو اسے خود حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے نہ ملی ہو۔ سیاست میں دشنام طرازی اور گالم گلوچ کی قبیح روایت ایوب خان کے دور سے شروع ہوئی جب اس نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے خلاف اپنی انتخابی مہم میں نامناسب طرز عمل اختیار کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان بُری روایات کا خاتمہ کر دیا جاتا مگر افسوس کہ سیاسی رہنما ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے اب تک باز نہیں آئے۔
اجلاس میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمینز پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد اور میاں فاروق الطاف‘ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر جنرل عابد شیروانی‘ سلمان غنی‘ قیوم نظامی‘ اسلم زار ایڈووکیٹ‘ میاں سلمان فاروق‘ خالد محمود‘ بیگم خالدہ جمیل‘ فاروق آزاد‘ رئوف طاہر‘ اقبال قدوائی‘ مسز شاہین احمد اور علامہ محمد ضیاالحق نقشبندی نے بھی میاں محمد اظہر کے خطاب پر اپنی آراء کا اظہار کیا جن کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان بنانے اور اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے والی لیڈر شپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد کسی حکومت نے قوم سازی اور کردار سازی پر توجہ نہ دی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے معزز مہمان کی تشریف آوری پر ان سے اظہار سپاس کرتے ہوئے کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نسل نو کی نظریاتی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کیونکہ وہ اسے پاکستان کا مستقبل سمجھتا ہے۔ ہم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن کے مطابق پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ میاں فاروق الطاف نے کہا کہ مشکل ترین معاشی صورتحال کے باوجود پاکستان کا مستقبل محفوظ اور تابناک ہے۔ بس اہل وطن شخصیت پرستی کی علت سے اپنی جان چھڑا لیں اور اس مملکت خداداد کو ہر شے پر مقدم رکھیں۔
قبل ازیں میاں محمد اظہر کے ایوانِ قائداعظمؒ پہنچنے پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے ان کا پُرتپاک خیرمقدم کیا اور بتایا کہ انشاء اللہ ایوان قائداعظمؒ بابائے قوم کے افکار کے ابلاغ کا عالمی مرکز اور نسل نو کی نظریاتی تعلیم و تربیت کا عظیم الشان گہوارہ ثابت ہو گا۔ اجلاس کی نظامت کے فرائض’’ ایوان قائداعظمؒ فورم‘‘ کی کنوینر اور معروف سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع نے بڑی عمدگی سے نبھائے اورکہا کہ اس فورم پر قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان سے متعلق نظریات و تصورات کے تناظر میں مختلف شخصیات کو اظہار خیال کی دعوت دینے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
٭٭٭٭٭
پاکستان کی سیاسی تاریخ اور مستقبل کے امکانات
Jul 30, 2019