دورۂ امریکہ کے بعد وزیراعظم عمران خان کا پرتپاک خیرمقدم کیا گیا اور دو بجے الصبح کارکنان کی ایک کثیر تعداد سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ میرے دورہ امریکہ کی کامیابی اور الیکشن 2018ء کے پیچھے سوشل میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ قارئین! اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ 1997ء اور 2002ء کے الیکشن میں بُری طرح فلاپ ہونے والی اس پارٹی نے خود کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا طریقہ اپنایا۔ دراصل انہی دنوں تیونس میں ایک ریڑھی بان کے ساتھ ریاستی مشینری نے ستم ڈھایا تھا جس پر وہاں قدم جماتے ہوئے سوشل میڈیا کی متعدد ویب سائیٹس کو عوام نے سیاسی پیغام رسانی اور مزاحمتی تحریک کے لیے ہتھیار بنا لیا، دیکھتے ہی دیکھتے پوری عرب دنیا سمیت ایشیا اور افریقہ میں بھی متعدد سماجی ویب سائیٹس کے استعمال کا رجحان بڑھنے لگا۔ یقینا پاکستان بھی اس لہر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور پاکستان کی یوتھ کے ہاتھ ایک ایسا ہتھیار آ گیا جس کو کنٹرول کرنا اس کے بعد انسانی بس میں نہ رہا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وائی فائی کا استعمال، قصبوں، دیہات اور گوٹھ تک ہونے لگا، اس دوران موبائل ٹیکنالوجی نے جو عروج حاصل کیا تو اس وقت کے صدر جنرل مشرف بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ کون کہتا ہے کہ ہم غریب ہیں، اس وقت پاکستان میں پانچ کروڑ صارفین موبائل فون اور انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا چینلز اور انڈسٹری میں انقلاب آ گیا۔ شاید ہماری نوجوان نسل کو یہ خبر ہو کہ وہ جنرل پرویز مشرف ہی کی شخصیت تھی جس نے پہلی دفعہ پی ٹی وی کے علاوہ نجی ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیو پبلک کے لیے عام کیا اور حسب ڈیمانڈ لائسنس جاری کرتے وقت کسی بھی ضابطہ اخلاق کو منوائے بغیر لائسنس جاری کیے جس کے نتیجے میں جیسے بندر کے ہاتھ تلوار آ گئی اور میڈیا کے انڈسٹری کے اندر جیسے بارش میں مشروم نکل آتے ہیں۔ اسی طرح اینکرز، نیوزکاسٹرز اور انٹرٹینمنٹ کے لوگ دونوں ہاتھوں سے پیسہ سمیٹنے لگے۔ خود میرے ایک دوست سابق وزیراعظم پاکستان جو ان دنوں ایک نئے ٹی وی ٹاک شو میں ہر روز دیکھے جاتے تھے مجھے بتانے لگے کہ میرا شو میں بیٹھنا مفت میں نہیں اور ابھی کل ہی میں نے اس ٹاک شو کے اینکر کو نئی ہنڈا گاڑی گفٹ کی ہے ۔
قارئین اس بات کو میں نے اکثر اپنے کالمز میں کوٹ کیا ہے کہ آج کے ارب پتی کچھ اینکرز خواتین و حضرات کو میں نے لاہور پریس کلب کی کینٹین پر اداس بیٹھے دیکھا اور ان بیچاروں کے پاس چائے تک کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے لیکن آج ان میں سے اکثریت کے پاس سی کلاس مرسڈیزگاڑیاں اور بعض کے پاس اپنے پرائیویٹ جہاز موجود ہیں۔ ایک مشہور اینکر مجھے ڈیوس روڈ پر اپنے پنکچر شدہ سائیکل کو گھسیٹتے ہوئے ملے اور آج وہ اسلام آباد میں اربوں روپے پراپرٹی اور ایڈورٹائزنگ کمپنی کے مالک ہیں۔ اسی طرح نام نہاد ٹی وی چینلز کی بھرمار نے اس بلیک میلنگ کے دھندے کو خوب جِلا بخشی اور آج بے ہنگم اور بے قابو ہو کر ریاست کا یہ خودساختہ چوتھا ستون ایک آسیب کی شکل اختیار کر چکا ہے اور ریاست نے اس کے سدِباب کے لیے پیمرا کا ادارہ تشکیل دیا جو حکمران وقت کے اشاروں پر ناچتے ہوئے کوئی بھی مثبت نتیجہ دینے سے قاصر ہے۔قارئین! امریکی اور یورپی سروے کے مطابق الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس طوفان میں عوام کے اندر عدمِ برداشت پیدا کیا ہے اور آج کتابیں پڑھ کر ریفرنس تیار کرنے کی بجائے آسانی سے گوگل کرکے لنک دے دیا جاتاہے لیکن ان تمام حوالہ جات کی کریڈیبلٹی کو سو فیصد مستند قرار نہیں دیا جا سکتا۔کہیں بھی ایک چھوٹی سی شرارتی چنگاری دنیا کے امن کو بھسم کر سکتی ہے اس لیے سماجی ویب سائیٹس کے مالکان کو جلد یا بدیر کچھ نئے ضابطہ اخلاق تیار کرنے ہوں گے وگرنہ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ قلم کے نام پر انسانیت اور مذاہب کی تذلیل کا سلسلہ جاری رہے گا اور وزیراعظم عمران خان صاحب کو بھی اب اپنے قریبی ساتھیوں، دوستوں اور سوشل میڈیا ٹیم کو ضابطۂ اخلاق کے اندر لانا ہوگا ورنہ زلفی بخاری کی جو شکایات امیرِ قطر نے خود وزیراعظم پاکستان سے کی ہیں ان کو نہ روکا گیا تو کسی دن ایسے دوست ریاست کے لیے شرمندگی کا باعث بنیں گے۔
شنید ہے کہ آج کل نیب کے زیر حراست ملزمان کو سالگرہ منانے کا خصوصی پیکیج بھی دیا جا رہا ہے۔ قارئین! کیا یہ کڑوا سچ نہیں کہ عمران خان سرکار پختونوں اور بلوچوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے جبکہ سرکاری کلیدی عہدوں، وزارتوں، مشاورتوں میں65 فیصد آبادی رکھنے والے پنجاب کا حصہ فقط 10فیصد ہی نظر آتا ہے۔ تین صوبوں اور کشمیر، گلگت بلتستان کے سکولز میں ابتدائی تعلیم مقامی صوبائی زبانوں میں جبکہ پنجاب میں ’’لکھنؤ‘‘ کی زبان کو سرکاری درجہ کیوں؟ حتیٰ کہ تینوں صوبوں کے تھانوں میں ایف آئی آر تک سندھی، بلوچی اور پشتو میں کاٹی جاتی ہے جبکہ پنجاب میں د رآمد شدہ زبان میں اندراج ہوتا ہے حتیٰ کہ پنجاب کے بلوچ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے گذشتہ روز پنجاب کے سکولز میں اردو کو سرکاری زبان قرار دیا ہے جو کہ پنجابیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ نہ جانے اہل پنجاب کب بیدار ہوں گے؟ اور تو اور خود میں اتنا بے بس ہوں کہ اپنے ہمنوائوں کو سمجھانے کے لیے بھی درآمدی زبان کا محتاج ہوں اور اسی المیے کو اجاگر کرنا ’’پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان ‘‘کا مینی فیسٹو ہے۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024