انگریز ی زبان کی کہاوت ہے (THOSE WHO IGNORE HISTORY ARE CONDEMEND BY IT) (جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے تاریخ انہیں سبق سیکھاتی ہے) کچھ یُوں گمان ہوتا ہے کہ امریکیوں نے تاریخ کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ اب دور کیا جانا ہے۔ پہلی غلطی انہوں نے کوریا میں کی، دوسری کے ویت نام میں مرتکب ہوئے اور تیسری (شاید آخری) افغانستان میں کر بیٹھے۔ جاپان پر ایٹم بم پھینک کر یہ سمجھتے تھے کہ ان کی دھاک چار دانگ پھیل چکی ہے اور یہ کہیں بھی جائیں، مخالف فریق لرزہ براندام ہو جائے گا اور شکست تسلیم کرلے گا۔ پہلا تلخ تجربہ تو انہیں کوریا میں ہوا۔ جنرل ڈگلس میک آرتھر کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ مارشل لین پائو فوجوں کا ٹڈی دل ہے۔ پہاڑ سے نیچے اُتر آیا ہے۔ مقابلہ مشکل تھا۔ اس نے امریکی حکومت سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی درخواست کی جو قبول نہ ہوئی۔ اس کی چند وجوہ تھیں۔ ایٹم بم کے استعمال سے جنوبی کوریا بھی متاثر ہوتا جن کی حفاظت کے لیے امریکی وہاں گئے تھے۔ امریکی عوام اس کے سخت خلاف تھے۔ اس طرح تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی تھی۔ شمالی کوریا میں کمیونسٹ حکومت تھی۔ روس بھی اس وقت ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ ان حالات میں امریکہ نے آدھی پر ہی اکتفا کیا اور پوری حاصل نہ کر سکے۔
ویت نام کسی زمانے میں فرانس کی کالونی تھی ، جب دنیا میں آزادی کی لہر اُٹھی اور محکوم قوموں نے غاصبوں کے خلاف جدوجہد شروع کی تو فرانس کو معروضی حالات کا ادراک نہ ہوا۔ ان سے کہیں زیادہ زیرک اورچالاک برطانوی تھے جو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خود ہی اقتدار سے الگ ہو گئے۔ جانے کے بعد بھی مکمل ترک تعلق نہ کیا بلکہ محکوم ملکوںکو دولتِ مشترکہ کا ممبر بنا دیا۔ (BIENDIEN FU) کے مقام پر فرانس کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ (FRENCH WERE WATERLOOD) بالکل ایسی شکست جیسی نپولین کو واٹرلو کے مقام پر ہوئی تھی…اس حقیقت کے باوصف امریکہ نے کوئی سبق نہ سیکھا بلکہ برطانیہ کو بھی ساتھ دینے کا کہا۔ برطانیہ نے صاف انکار کردیا۔ اس کانکتہِ نظر بڑا منطقی تھا۔ اگر ہندوستان میں وہ نہیں لڑے تو غیروں کی جنگ میںکودنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ تمام تر طاقت، ظلم اورزیادتی کے باوصف امریکہ ویت نامیوں کو شکست نہ دے سکا اور ناکام ونامراد واپس چلا گیا۔
تیسری جنگ افغانستان میں لڑی جا رہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی ملک زیادہ دیر تک اس خطے میں ا پنا تسلط قائم نہیں رکھ سکا۔ یہ درست طور پرکہا گیا ہے کہ افغانستان میں داخل ہونا آسان ہے لیکن وہاں حکومت کرنا مشکل ہے۔ برطانیہ کو تو اس کا تلخ تجربہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔ تمام فوج گنوانے کے بعد ایک ڈاکٹر بچا تھا جس نے واپس آ کر روح فرسا خبر سنائی۔ روس جیسی سوپر پاور بھی شکست کھا کر واپس چلی گئی۔ افغان جنگ نے اس کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا اور ملک ٹوٹ گیا۔ وہ تمام ملک جن پر اس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد قبضہ کر لیا تھا اس کے چُنگل سے آزاد ہو گئے۔
امریکہ نے بیک وقت دو ملکوں پر حملہ کردیا۔ عراق اور افغانستان جواز 9/11 کے واقعے کو بنایا۔ چالاکی سے نیٹو ممالک کو بھی اتحاد میں شامل کر لیا۔ عراق پر قبضہ نسبتاً آسان تھا۔ ملک کی غالب اکثریت آمر صدام حسین کیخلاف تھی۔ لیکن افغانستان میں آ کر انہیں احساس ہوا کہ یہاں پانی مرتا ہے۔ سارا علاقہ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ گو خود ساختہ امیر المومنین ملا عمر کی حکومت ختم ہو گئی۔ اسے کابل سے نکل کر پہاڑوں میں رُوپوش ہونا پڑا ۔ اسامہ بن لادن بھی دربدر ہوا اور بالآخر امریکی حملے میں مارا گیا لیکن گوریلا جنگ جاری رہی۔ الیکشن کا ڈھونگ رچا کر دو کٹھ پتلی حکومتیں ملک پر مسلط کی گئیں لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ نہ تو کرزئی اور اشرف غنی عوام کے نمائندے ہیں اورنہ اس اہل کہ امریکی بیساکھیوں کے بغیر کاروبار حکومت سنبھال سکیں۔ یہ مٹی کے مادھو ہیں جنہیں کمپنی کی مشہوری کیلئے جمہوریت کے شو کیس میں سجایا گیا ہے۔ امریکہ نے ہندوستان کو بھی اس علاقے میں کھل کھیلنے کا پورا موقع فراہم کیا ۔ ہندوستانی ایجنسی را اور کابل کی خفیہ ایجنسی افغانوں کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتیں، ان کا واحد مقصد اور مشن پاکستان کو زک پہنچانا ہے۔ اس کام میں اشرف غنی کی حکومت مکمل طور پر ملوث ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کابل حکومت ہندوستان سے مل کر کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے؟ یہ دریوزہِ گر آتشِ بیگانہ ہے۔ امریکی چھتری کے بغیر ایک دن بھی کابل میں قیام نہیں کر سکتے۔ امریکی فوجوں کے انخلا سے پہلے ہی انہوں نے رفوچکر ہو جانا ہے۔
برسوں کی جنگ بے شمار فوجی مروانے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ افغانستان کو نہ تو مکمل طور پر فتح کیا جا سکتا ہے اورنہ افغانیوں کا سر جُھکایا جا سکتا ہے۔ یہ عجیب قوم ہے جو جنگ کو ایک کھیل سمجھتی ہے۔ ایک نسل لڑتے لڑتے ختم ہوجاتی ہے تو دوسری کھیپ تیار ہو جاتی ہے۔ بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو اسکے ہاتھ میں کھلونا نہیں بندوق ہوتی ہے۔ گولیوں کی تڑ تڑاہٹ ان کی موسیقی ہے جس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کیلئے امریکیوں کو گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ یہ چشمِ زدن میں وہاں ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں۔ کرنل راس نے بلوچوں کے متعلق لکھا تھا کہ ایک بلوچ کیلئے دن میں پچاس میل کا سفر طے کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ یہی حال پٹھانوں کا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر پتھروں کے پیچھے چھپا ہوا شخص یا کسی غار میں مورچہ بند گوریلا سو آدمیوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ بعداز خرابی بسیار جب فورس وہاں پہنچتی ہے تو وہ چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔ بلوچستان میں مجھے عملی طور پر اس کا تجربہ ہوا ہے ۔ بطور اسسٹنٹ کمشنر (ناظم الحکومت) مجھے بلوچ لیویز اور فرنٹیر کانسٹیبلری کے ساتھ (OUT LAWS) کے تعاقب میں پہاڑ پر جانا پڑتا تھا۔ ان علاقوں میں ہوائی حملے بھی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتے۔ نواب کالا باغ کے زمانے میں باغی نواب نوروز خان کے لشکر پر کئی ائیر ریڈ ہوئے جو مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکے۔ یہی حال امریکی حملوں کا ہے۔ ایک شخص کو ختم کرنے کیلئے کروڑوں روپے کے بم گرانا پڑتے ہیں۔
ویت نام کی جنگ کی طرح امریکی عوام افغان جنگ سے بھی تنگ آ چکے ہیں۔ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ٹون ٹاور وغیرہ پر حملے کا ’’ماسٹر مائینڈ‘‘ اسامہ بن لادن امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مارا جا چکا ہے۔ ملا عمر بھی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ بے شمار افغان کمانڈر بھی ڈرون حملوں کی زد میں آ کر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ متحارب فوجوں کے علاوہ بیشمار معصوم شہری بھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں اس بے مقصد جنگ کا اب جواز کیا رہ جاتا ہے؟ افغان بھی اس جنگ سے تنگ آ چکے ہیں۔ ملا عمر کی بے جا ضد نے انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ یہ کوئی معرکہ کفر و اسلام تو ہے نہیں نہ یہ صلیبی جنگ ہے۔ اگر یہ جہاد نہیں ہے تو پھر صلح کرنے میں کیا حرج ہے؟ معاہدے کی صورت میں اگر کسی نے تضحیک کا نشانہ بننا ہے تو وہ امریکہ ہو گا، افغان نہیں! ویسے یہ کہنا کہ اس جنگ میں کوئی فریق جیت گیا ہے تو شاید درست نہ ہو ۔ اسے WIN - WIN سچوایشن کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ امریکہ نے بہرحال ملا عمر کی حکومت ختم کر دی۔ اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ کابل پر قبضہ کر لیا۔ اپنے ازلی دشمنوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ اسے یہ اپنی فتح قرار دے سکتے ہیں۔ افغان بھی اس بات پر اترا سکتے ہیں کہ ایک سپر پاور اور نیٹو فورسز ان سے ہتھیار نہیں ڈلوا سکیں۔ ایک وسیع علاقے پر ہنوز ان کی عملداری ہے۔ صلح کی پیشکش امریکہ نے کی ہے، انہوں نے ہاتھ نہیں جوڑے۔
دوحہ میں جو مذاکرات ہو رہے ہیں انہیں اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ افغان سرزمین ان کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہو گی۔طالبان مان گئے ہیں۔ ماننا بھی چاہئے! دریائے خون عبور کرنے کے بعد ایک اور دریا کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔ مُلا عمر کی ہٹ دھرمی نے انہیں اس مقام پر پہنچایا ہے کوئی ایسا گھر نہیں ہے جہاں سے کوئی نعش نہ اُٹھی ہو۔ امریکی مطالبہ اُسامہ کوافغانستان سے نکالنے کا تھا۔ یہ آسانی سے اسے اِدھر اُدھر کھسکا سکتے تھے۔ امریکی اسے ڈھونڈتے رہتے، ایک شخص کے تحفظ کیلئے لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنا عقلمندی نہیں ہے۔ جو ہو چکا ہے اس پر طویل بحث عبث ہے۔ البتہ جو ہونا چاہئے وہ محلِ نظر ہے۔
اب ہو گا کیا؟ قرائین اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جلد ہی فریقین میں معاہدہ طے پا جائیگا۔ امریکی فوجیں بتدریج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ طالبان تسلی رکھیں کہ انکی واپسی کبھی بھی نہیں ہو گی۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پُھونک پُھونک کر پیتا ہے۔ یہ تو جہنم زار سے نکل کروطن لوٹیں گے۔ معاہدہ کچھ بھی ہو، اشرف غنی اینڈ کمپنی کسی صورت بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ افغان فوج یا تو طالبان کے ساتھ مل جائیگی یا پھرتتر بتر ہو جائیگی۔ اشرف غنی، کرزئی امریکہ میں زندگی کے بقیہ دن گزاریں گے۔ عبداللہ عبداللہ واپس وطن (شمال) لوٹ جائیگا۔ ایران سے مدد کا خواہاں ہو گا۔ طالبان اگر معاہدے پر قائم رہے تو امریکہ ایک طویل عرصے تک ان کی مالی امداد کرتا رہے گا۔ ملکی معیشت کو سہارا دیگا…البتہ! ایک بات کا خدشہ ہے، افغانستان میں کئی جنگجو گروپس ہیں، کئی وار لارڈز ہیں! اقتدار کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ یہ اپنی راہیں خود متعین کرتا ہے۔ چونکہ دشمن ایک تھا اس لیے یہ متحدہ تھے۔ کیا اس قسم کا اتحاد معاہدے کے بعد بھی قائم رہ سکے گا؟ کیا یہ ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار تو نہیں ہونگے؟
IT IS A MILLION DOLLAR QUESTION --- YOUR GUESS IS AS GOOD AS MINE)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024