پاکستان، چین قربتوں کے باعث نواز شریف کو امریکہ کی نظرلگ گئی: فضل الرحمن
اسلام آباد (آن لائن) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاک چین قربتوں کے باعث نواز شریف کو امریکا کی نظر لگ گئی ہے۔ ہمیں عدالت سے انصاف کی امید تھی اور ہے مگر بظاہر ایسا لگتا ہے پانامہ کیس میں عدالت سے انصاف نہیں تحریک انصاف نکلا ہے۔ گزشتہ روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ مجھ پر کوئٹہ میں خود کش حملے کے دوران گاڑی میں موجود ساتھی ایک ماہ کے بعد میرے پاس آئے تو کہنے لگے کہ میرے ابھی تک کان بند ہیں۔ میں نے کہا کہ دھماکہ میری طرف ہوا آپ کی طرف نہیں تو اس نے جواباً کہا کہ میری پہلی باری سے دھماکے کی میں نے وزیراعظم کو کہا کہ آپ کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں بار بار ہو رہا ہے جس پر تمام شرکاء مسکرائے اور قہقہ لگایا۔ انہوں نے کہا کہ میری نظر میں نواز شریف کو امریکہ کی نظر لگ گئی ہے۔ امریکہ کو سب سے زیادہ پریشانی تھی نواز پاکستان کو کیوں چین کی طرف لے کر جا رہا ہے اتنے بڑے ترقیاتی منصوبے پاکستان کیوں آر ہے ہیں۔ پاکستان نے اپنی اقتصادی ترقی کیے لئے مغرب کی طرف رخ کیوں نہیں کیا چین کی طرف کیوں گئے۔ امریکہ کو تکلیف ہے چین سی پیک کے ذریعے نئے اقتصادی وژن کو ہمارے مقابلہ میں لا رہا ہے اور پاکستان اس کی پہلی سیڑھی بن رہا ہے چین اور پاکستان کے ایک ہونے کے باعث امریکہ اور بھارت ایک ہوں گے۔ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو ضرور بد دعائیں دی ہوں گی۔ پاکستان نے عالمی پالیسیوں کا رخ چین کی طرف کر دیا ہے پہلے ہمارے آرمی چیف امریکا کا دورہ کرتے تھے مگر موجودہ آرمی چیف نے اپنا پہلا دورہ چین کا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سوچ رہے تھے نواز شریف پر پانامہ کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ پانامہ لیکس کے بعد وزیراعظم کے اربوں کھربوں روپے نکلیں گے جس پر ان کو نا اہل کیا جائے گا پھر جیل میں اور پیسہ واپس آئے گا کہ نہیں مگر جو فیصلہ آیا کہ آپ جس کمپنی کے ملازم ہے کمپنی نے تنخواہ دی اور آپ نے وصول نہیں کی وہ اس قابل تھی کہ اپ وصول کرتے اب وہ آپ کا اثاثہ ہے آپ کو ظاہر کرنا چاہیئے تھا اس لئے آپ کو نا اہل کیا جاتا ہے۔ عدالت نے اس نکتے پر وکلاء سے مشورہ یا تشریخ لے لینی چاہیئے تھی۔کیا پیسے لینے پر وزیراعظم پر آرٹیکل 62,63 لگانا جائز ہے۔ دنیا کی کسی بھی عدالت میں لے جائیں اس فیصلہ کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گی۔عدالت کے فیصلہ پر شدید حیرت ہوئی۔ ضیاء دور میں کئی پیشکشیں ہوئیں لیکن اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ نواز شریف کی بھارت کے حوالے سے حکمت عملی پر کہا کہ اس کا سٹرٹیجک لحاظ سے فرق نہیں پڑا ہم دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہیں۔ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سیاستدانوں کو اپنے سیاسی انداز پر چلنے دیں اشتعال کی صورت میں نقصان ہے۔ 62، 63 اور 6 کی وضاحت ہونی چاہئے اگر 62، 63 میں کوئی سقم ہے تو اتفاق رائے سے دور کرنا چاہئے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔ جنرل ضیاء الحق کے 62، 63 پر پورا اترنے کے سوال پر کہا کہ کسی نے اس کو چیلنج نہیںکیا، جمہوری اداروں کی توثیق کے بعد آرٹیکل جمہوری بن جاتا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میں 62، 63 پر پورا اترتا ہوں یا نہیں، میرا حق نہیں بنتا کہ عمران، سراج الحق کے حوالے سے رائے دوں کہ آرٹیکل 62، 63 پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ قومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت کی حمایت نہیں کریں گے، اس کا مقصد آمریت کی راہ ہموار اور جمہوریت سے دور کرنا ہے، ملک میں اچھا جمہوری نظام ہے۔