میں نے پچھلے ایک کالم میں لکھا تھا۔ اب یہ نعرہ نوشتۂ دیوار ثابت ہوا ہے کہ یہ مختلف شہروں کی دیواروں پر لکھا ہوا تھا نواز شریف کو جانے دو، شہباز شریف کو آنے دو۔ کیا وزیراعظم بن کے ان کے ساتھ بھی وہی ہونا ہے جو نواز شریف کے ساتھ ہوا ہے۔ پہلے بھی شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کا ماحول سامنے آتا رہا ہے۔
نواز شریف اور ان کی پوری فیملی گئی۔ شہباز شریف اور ان کی فیملی بچی ہوئی ہے۔ اللہ خیر کرے اور مجھے خیر ہوتی نظر نہیں آتی۔ کیا یہ کسی دوسری خبر کے آنے کا اہتمام تو نہیں کیا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شہباز شریف کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔
اس سے پہلے مجھے یہ بتایا جائے کہ چودھری نثار سب کے ساتھ نہیں گئے؟ اس سے پہلے ازخود گئے ہیں مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں چٹان کی طرح نواز شریف کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ چودھری صاحب نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر سنا۔ وہ اس کے بعد بھی دو بار نواز شریف کے پاس گئے۔ کیا نواز شریف بھی چودھری صاحب کے ساتھ مشکل وقت میں یہی سلوک کرتے؟
اس ساری بات کے باوجود چودھری نثار شہباز شریف کے دوست ہیں۔ شہباز شریف اگر وزیراعظم بنتے ہیں تو چودھری صاحب پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے؟ اگر ایسا ہو جائے تو بہت اچھا ہو گا۔ میں نے تیسری بار بھی اپنی اس خواہش کے ساتھ سوالیہ نشان لگایا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جس بات کے ساتھ سوالیہ نشان لگایا جائے تو اس کا جواب زیادہ اچھے نتائج کا باعث ہوتا ہے۔
میری ابھی تک ایک ہی ملاقات چودھری صاحب کے ساتھ برادرم نواز رضا کے ساتھ ہوئی ہے۔ میں چودھری صاحب کو پسند کرتا ہوں۔ وہ کسی بڑے آدمی کے سامنے ڈٹ کے کھڑا ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور کوئی بھی بات کہنے کا دل رکھتے ہیں۔ وہ بے نیاز آدمی ہیں اور اس لئے بے خوف بھی ہیں۔
ایک بات سامنے آئی ہے کہ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سب نے کہا کہ ہم نواز شریف کے ساتھ ہیں اور ان کی خاطر استعفیٰ دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ یہ لوگ نواز شریف کے وفادار ہوں گے مگر اب تو وہ کچھ بھی نہیں رہے تو استعفیٰ کس بات کا دیں گے۔
ایک آدمی اپنی وفاداری کے لئے تقریر کر رہا تھا کہ میرے پاس گاڑی ہوتی تو میں وہ قربان کر دیتا اگر میرے پاس گھر ہوتا تو وہ بھی لٹا دیتا۔ مگر میں موٹر سائیکل اپنے پاس ہی رکھوں گا کہ موٹر سائیکل میرے پاس ہے۔
نواز شریف کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنتے ہیں تو حکومت گھر میں ہی رہے گی۔ اس موقع پر شاید اس کے سوا کوئی اور راستہ نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے ہیں۔ سب سے بڑی مشکل یہ پیدا ہو گی کہ اب وزیراعلیٰ پنجاب کون ہو گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کس طرح یہ منصب شریف فیملی سے باہر جا سکتا ہے؟ کوئی کتنا ہی وفادار کیوں نہ ہو وہ اس شراکت اقتدار کا اہل تو نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم کے لیے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی کر لیا ہو گا مگر کس مشکل سے کیا ہو گا؟
پہلے تو یہ تھا کہ اوپر بڑا بھائی نیچے چھوٹا بھائی۔ اب ہر طرف چھوٹا بھائی ہو گا۔ شاید یہ بہتر ہو کیونکہ نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد یہ سوچ آ سکتی ہے کہ تین بار پاکستان کا وزیراعظم بننے والاکیا ایک نااہل آدمی تھا۔ چودھری نثار اور شہباز شریف میں بڑی دوستی اور انڈرسٹینڈنگ ہے جبکہ چودھری نثار اور نواز شریف میں کچھ کچھ سردمہری تھی۔
چودھری نثار نواز شریف سے کہتے رہے کہ تحمل اور تدبر سے کام لیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے نواز شریف سے کہا تھا کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہو تو پائوں زمین پر رہنے دیجئے۔ اگر خلاف ہو تو صبر اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ اللہ کا شکر ہے کہ چودھری نثار کی یہ بات نواز شریف نے یاد رکھی ہے۔ فیصلے کے بعد سب سے پہلے جو آدمی نواز شریف کے پاس ملنے گیا وہ چودھری نثار تھے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024