مال یا وبال

قرآن نے مال اور اولاد کو دنیا کی زینت اور آرائش قرار دیا ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ مال ، اولاد اور نیک اعمال آخرت میں کام آئیں گے۔ قرآن نے مال اور اولاد کو ایک فتنہ بھی کہا ہے۔ بڑی دولت اور بڑے اثاثے اگر کوئی احسن چیز ہوتی تو اﷲ اپنے پیغمبروں اور برگزیدہ لوگوں کو دولت اور اثاثوں سے نوازتا‘ لیکن قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں پیغمبروں اور رسولوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کی خوبیاں گنوائی گئی ہیں تو ان منتخب اور مقرب شخصیات کا دولت کے حوالے سے کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ ان شخصیات کو اﷲ نے علم‘ حکمت اور دانائی کی دولت سے نوازا تھا۔ ان عظیم ہستیوں نے جو انقلاب برپا کئے وہ دولت کی بنیاد پر نہیں بلکہ خدا کی طرف سے دئیے گئے علم‘ حکمت اور دانائی کی بنیاد پر برپا کئے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دولت کے مقابلے میں علم و حکمت اور دانائی زیادہ ارفع اور طاقت ور خزانہ ہے۔ کسی بھی پیغمبر کو دولت کے خزانے اور جنگی سازوسامان یا دنیاوی اسباب نہیں دئیے گئے۔ سارے پیغمبروں نے خدا کی نصرت، اس کی مدد اور اس کی طرف سے ملنے والے علم اور دانائی سے دنیا کو بدل دیا۔ خدا کی نصرت، علم اور دانائی کی بنیاد پر انہوں نے دنیا کے نمرودوں ‘ فرعونوں ‘ ہامانوںاور قارونوں کو چیلنج کیا اور ان کے مقابلے میں عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔
دنیا کی جدید تاریخ میں جن شخصیات نے انسانی تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں وہ بھی دولت مند لوگ نہیں تھے بلکہ وہ علم و دانائی اور اپنے کاز کے ساتھ اخلاص ر کھنے والے لوگ تھے۔ جدید چین کے معمار ما¶زے تنگ ایک کسان کے بیٹے تھے جنہوں نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے چین کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرایا اور ایک نئے چین کی بنیاد رکھی جو آج دنیا کی ایک سپر پاور بن گیا ہے۔ ما¶زے تنگ کوئی امیر یا با ثروت شخص نہیں تھے۔ ایک معمولی کسان کے بیٹے تھے انہوں نے بھی اپنی دانش اور حکمت اور اپنے مقصد کے ساتھ لگن سے بیسویں صدی کا ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا نے عالمی سیاست میں جو مقام حاصل کیا وہ دولت اور اثاثوں کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف جدوجہد کے باعث ، دور کیوں جائیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کوئی بہت دولت مند شخصیت نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے علم‘ کردار کی پختگی اور عزم اور ارادے کی بدولت جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لئے پاکستان حاصل کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان متحدہ ہندوستان میں ایک نواب تھے وہ ایک ریاست کے مالک تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد وہ اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ کر آ گئے۔ جب لیاقت باغ میں 26 اکتوبر 1951ءکو انہیں قتل کیا گیا تو ان کی قمیض اور جرابیں پھٹی ہوئی تھیں۔ بنک میں ان کے اکا¶نٹ میں صرف 54 روپے تھے۔ قائد اعظم کے کئی دوسرے ساتھیوں کا تعلق درمیانے طبقے سے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک جاگیردار تھے لیکن انکا شمار انتہائی دولت مند لوگوں "Super Rich" لوگوں میں نہیں ہوتا تھا۔ خواجہ ناظم الدین ‘ غلام محمد‘ محمد علی بوگرہ ‘ حسین شہید سہروردی‘ فیروز خان نون‘ محمد خان جونیجو کا شمار ارب اور کھرب پتی لوگوں میں نہیں ہوتا تاہم انہوں نے پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کا شمار پاکستان کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ پانامہ پیپرز کے بعد بیرون ملک ان کے اثاثوں کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک انتہائی مال دار شخص ہیں۔ شاید ان سے بھی زیادہ مال دار لوگ پاکستان میں ہوں لیکن وہ ”چھپے رستم“ ہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کے دوسو ارب ڈالر بیرونی ملکوں میں جمع ہیں۔ جن کا سراغ لگانا آسان نہیں۔ ہمارے ماضی کے کئی لیڈروں نے کوششیں کیں کہ بیرون ملک بنکوں میں موجودہ سرمایہ واپس پاکستان آ جائے لیکن جو پیسہ ایک مرتبہ پاکستان سے باہر جاتا ہے وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ اب تو یہاں ایک فیشن بن گیا ہے کہ غیر قانونی طریقہ سے جو پیسہ بنایا جاتا ہے وہ پاکستان سے باہر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے صنعتکاروں اور تاجروں کو چھوڑیں سرکاری افسران اور نچلے درجے کے سرکاری اہلکاروں کے بیرون ملک جمع پیسے کے بارے میں جب حقیقت سامنے آتی ہے تو سننے والا حواس کھو بیٹھتا ہے کہ ایک معمولی اہلکار نے اتنا پیسہ کس طرح حاصل کیا۔ برطانیہ میں تو کم و بیش ہر اس پاکستانی سیاستدان کی پراپرٹی موجود ہے جو چند برس پارلیمنٹ کا رکن رہا ہے یا کسی وزارت پر فائز رہا ہے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کاسرمایہ ان کے کچھ کام نہیں آ سکا۔ الٹا ان کے لئے یہ وبال بن گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے انہیں جو دھچکا لگا ہے اس کے بعد انہیں ضرور سوچنا چاہئے کہ مال و دولت وبال بھی بن جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭