نوازشریف کے خلاف فیصلہ طے شدہ ، پھر بھی تسلیم کرتے ہیں، حاصل بزنجو
کراچی(اسٹاف رپورٹر)نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر میر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس میں وزیر اعظم کی نااہلی کا فیصلہ تاریخ میں طاقتور نہیں بیمار فیصلہ کہلایا جائے گا،یہ بات پہلے سے واضح تھی کہ بینچ کو نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینا ہی تھا،نیب میں کیسز بھیجنااور اس کی مدت 6ماہ کے لئے مقرر کرنا اور مانیٹرنگ کے لئے ایک جج کی نامزدگی سوالیہ نشان ہے ،بیس سالوں سے نیب میں سینکڑوں کیس ہیںان کے لئے تو ایسا نہیں کیا گیا،لیکن پھر بھی ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیںکیوں کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اور عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ ہمارا اتحاد جاری رہے گااور اس مشکل وقت میں ہم ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ہفتہ کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک،ملک ایوب، محمد رمضان، اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ سنیٹر میر حاصل بزنجونے کہا کہ سپریم کورٹ کا جوبھی فیصلہ ہے اس کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔ پانامہ لیکس کے کیس کے چلنے کے دوران یہ بات پہلے سے واضح ہورہی تھی کہ بینچ کو ہر حالت میں نواز شریف کے خلاف ہی فیصلہ دینا تھابینچ پری آکو پائیڈ تھی۔ یہ بات سوالیہ نشان ہے کہ نواز شریف اور ان کی ٹیم کے افراد کو ناہل قرار دے کران کے ریفرنسز ٹرائل کے لئے نیب میں بھیج دیئے گئے ہیںاور اس کے لئے 6ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے اور مانیٹرنگ کے لئے ایک جج بھی مقرر کیا جائے گا۔ جبکہ بیس سالوں سے نیب میںسینکڑوں کی تعداد میں دوسرے کیسز کرپشن کے حوالے سے چل رہے ہیں ان کے لئے تو ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ان کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اقامہ میری نظر میںنااہلی کے حوالے سے ایسی کوئی بڑی وجہ نہیں ہے کیوں کہ اگر پارلیمنٹ میں دیکھا جائے تو وہاں تقریبا60اراکین ایسے ملیں گے جن کے پاس اقامہ ہوگا۔ اس کے علاوہ صحافیوں، تاجروں اور صنعتکاروں کے پاس بھی اقامہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ میری اسلام آباد سے چلنے سے قبل نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی ان کا کہنا تھا کہ وہ پیر کے روز پارلیمنٹ کا اجلاس بلا رہے ہیںانہوں نے کہاکہ میںحکومت میں رہوں نہ رہوں میں جمہوریت کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھوں گا۔سنیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ اپنے کام کو جاری رکھے گی اور 2018ء کے انتخابات کے موقع پر اسمبلیاں دوسری مرتبہ اپنی مدت پوری کریں گی۔تمام سیاسی جماعتیں اور اراکین پارلیمنٹ بھی یہی چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنا کام جاری رکھے۔
حاصل بزنجو