میں ان دنوں یورپ اور ترکی کے ایک مطالعاتی دورے پر ہوں،ترکی میں دس روز ہ قیام کے دوران میں نے کئی اہم پہلوئوں کا مشاہدہ کیا۔ترکی اور پاکستانی عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کا جذبہ صدیوں پرانا ہے۔ ترکی کی جنگ آزادی اور تحریک خلافت کے دوران برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے جس طرح ’’دامے،درمے اور سخنے‘‘ ترکوں کی مدد کی اس کی پذیرائی آج بھی ترکی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
مولانا رومی ؒاور علامہ اقبالؒ کے روحانی رشتے نے دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم کیا ہے جوابدی حیثیت کا حامل ہے۔ قارئین کے لیے غالباً یہ بات خوش آئیند ہو گی کہ ترکی کے تعلیمی اداروں میں اردوزبان کی تعلیم دینے کااہتمام ایک صدی پرانا ہے ۔ 2015ء میں ’’تر ـکی میں اردو زبان‘‘ کا صد سالہ جشن بھی منایا گیا۔ ترکی کی تین یونیورسٹیوں استنبول، انقرہ اور قونیہ میں شعبہ اردو قائم کیاگیا ہے۔ حال ہی میں اردو زبان کو ہائی سکول کی سطح پر اختیاری مضمون کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نام سے دارالحکومت انقرہ میں ایک بڑی شاہراہ منسوب ہے۔ اسے ’’شاہراہ جناح‘‘ کہا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی میں بھارتی سفارت خانہ بھی جناح روڈ پر ہے۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ اتا ترک کو ایک مثالی لیڈر تصور کرتے تھے اور انہوں نے اتا ترک کی کتاب ’’گرے وولف‘‘ کو اپنی پسندیدہ کتاب قرار دیا تھا۔
ترک عوام نے علامہ اقبالؒ سے محبت کے اظہار کے لیے قونیہ میں ایک پارک کا نام ’’اقبال پارک‘‘ رکھا ہے۔ اسی طرح قونیہ میں ایک مسجد بھی ’’مسجد اقبالؒ‘‘ کے نام سے منسوب ہے۔ ترکی کے ایک صوبے ’’چوران‘‘ میں سانحہ اے پی ایس پشاور کے شہید بچوں کی یاد میں 144درخت لگا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا ۔
ترکی میں بزرگ شہریوں کو سفر میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ پورے ملک کی ٹرین سروس میں 60سال سے زائد عمر کے مسافروں کو بلا تخصیص (ترک شہری ہوں یا غیر ملکی سیاح) 20فی صد رعایت دی جاتی ہے۔ اسی طرح65سال سے زائد عمر کے افراد کو ٹرین کے سفر میں50فی صد رعایت دی جاتی ہے۔
ترکی میں متعین پاکستانی سفیر سہیل محمود اور پریس اتاشی سید عبدل اکبر سے ملاقات کے دوران احساس ہوا کہ دونوں کے دلوں میں پاک ترک تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ سید عبدل اکبر گزشتہ سات سال سے ترکی میں تعینات ہیں۔ انہیں ترک زبان پر عبور اور یہاں کے سیاسی اور ثقافتی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ ترکی میں متعین پاکستانی سفیر سہیل محمود ایک خوش مزاج اور صاحب مطالعہ شخصیت ہیں۔تحریک آزادی پاکستان ان کو ازبر ہے۔ تاریخ، سیاست اور بین الاقوامی امور پر ان کو خصوصی دسترس حاصل ہے ۔وہ ایک منجھے ہوئے پروفیشنل سفارت کار ہیں۔اسی وجہ سے حکومت پاکستان نے ان کی اگلی تعیناتی بطور سفیر بھارت میں کی ہے۔سہیل محمود سے پاک ترک تعلقات اور علاقائی صورتحال پر تفصیلی بات ہوئی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترکی دفاعی اعتبار سے بھی پاکستان کا ایک ایسا بے لوث حلیف ہے کہ جس کا ثانی کوئی نہیں۔
استنبول،انقرہ اور قونیہ میں مختلف الخیال لوگوں سے ملاقات ہوئی سبھی کے دلوں میں پاک ترک مثالی دوستی کی جھلک محسوس ہوئی۔ انقرہ میں ترک ٹیلی ویژنTRTبھی جانے کا موقعہ ملا ترک ٹی وی41غیر ملکی زبانوںمیں اپنی بین الاقوامی نشریات پیش کرتا ہے ۔دنیا کا کوئی دوسرا اسلامی ملک اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔
ترک ٹی وی کی اردو نشریات کے ہیڈ ایک پاکستانی نژاد ترک پروفیسر ڈاکٹر فرقان حمید صاحب علم و دانش کی دنیا کا ایک جانا پہنچانا نام ہیں۔ ا س عہدے پر آنے سے پہلے وہ انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے انچارج تھے۔ یہ دنیا کے واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے ترک ادب اور لٹریچر میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ترک صدر اور وزرائے اعظموں اور دوسرے اعلیٰ عہدہ داروں کے دورہ پاکستان کے دوران وہ ترجمان کے طور پر شریک سفر ہوتے ہیں اسی طرح پاکستان کے صدر مملکت، وزرائے اعظم، پاک فوج کے سربراہان اور دوسرے اہم پاکستانی عہدہ دار جب ترکی کے دروے پر آتے ہیں تو وہ یہاں ترجمانی کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر فرقان کا تعلق سٹیلائیٹ ٹائون راولپنڈی سے ہے۔ وہ گزشتہ تیس سال سے ترکی میں مقیم ہیں۔انہیں یہاں کی شہریت بھی مل چکی ہے۔ میں نے فرقان صاحب کو ترکی میں مجسم پاکستانی سفیر پایا۔
اللہ تعالیٰ ان کے جذبہ حب الوطنی اور خدمت کو قبول کرے ایسے پاکستانی بیرون ملک ہمارے وطن کی شان ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے دارالحکومت استنبول اور آبنائے باسفورس کے پل پر کھڑے ہو کر آپ ایشیاء اور پورپ کے کلچر اور سمندری پانی کے ملاپ کا نہ بھولنے والا منظر دیکھ سکتے ہیں۔ قونیہ میں روحانیت کا ہالہ ہے تو انقرہ جدید ترکی کا نمائندہ، ایسا شہر ہے جس کا تقابل آپ یورپ کے کسی بھی ترقی یافتہ شہر سے کر سکتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے جس طرح اپنے ملک میں ترقی اور قیادت فراہم کی ہے وہ مسلم امہ کے لیے مشعل راہ ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024