سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ،عوامی توقعات اور قومی تقاضے
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں نا اہل قرار دیا ہے۔آئین کی شق 62 (ایک)(ف) کے تحت صادق نہیں اترے۔اس فیصلے میں ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا حکم دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی فی الحال نواز شریف کی پارلیمانی سیاست کا دور ختم ہوا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بارے میں حسب معمول جن لوگوں کی جیت ہوئی ہے وہ اسے تاریخی فیصلہ کہہ رہے ہیں۔ان کا کہنا یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد سے اب پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس میں کرپشن کے خلاف فیصلہ کن کارر وائی کرنا ممکن ہوگی۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فیصلے سے یہ تاثر ختم ہوگیا کہ پاکستان میں طاقت ور آدمی بچ جاتے ہیں اورصرف عام آدمی کو ہی سزا ملتی ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ پہلے ملک میں یہ غلط روایت عام تھی کہ طاقت ور آدمی چاہے جتنے مرضی غلط کام کرے ،اپنی طاقت کا غلط استعمال کرے ،کرپشن یا ناانصافی کرے ،لیکن جب وہ عدالتوں کا سامنا کیا کرتا تھا تو وہ کسی نہ کسی طرح صاف بچ جایا کرتا تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ نوازشریف اور ان کا خاندان نا صرف سیاست میں بہت طاقت ور تھا بلکہ دولت کے لحاظ سے بھی ملک کے سب سے بڑے خاندانوں میں سے ایک تھا۔لیکن جو لوگ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جومقدمہ پانامہ کیس کے نام سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام متحدہ عرب امارات کے ایک اقامے پہ ہوا ہے۔ تنقید کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دعویٰ تو اربوں روپوں کا کیا گیا تھا۔لیکن فیصلہ ہزاروں درہم کی ہیر پھیر سے متعلق کیا گیا ہے جس کے بارے میں بہت سی متنازع باتیں کی جارہی ہیں ۔لیکن بہر حال سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان کے ہر شہری کو پابند کرتا ہے کہ وہ اس کے آگے سر جھکائے اور بغیر کسی چوں چراں کے تسلیم کرے ۔جیسا کہ اس فیصلے کے شروع ہی سے لوگوں کی امیدیں یہ ہیں کہ ملک میں جس قسم کی کرپشن اور دھاندلی مچی ہوئی ہے۔ جس طرح میرٹ اور عام آدمی کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے اور یہ سارے کام وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس یا توحکمرانی کی طاقت ہے، یا پھر دولت کی فراوانی۔اس قسم کی ناانصافی کو اب ختم کرنے کا موقع ملے گا۔ ایک عام پاکستانی کی یہی اس کیس سے سب سے بڑی دلچسپی وابستہ ہے۔ اب اگر اس فیصلے کے بعد اگر عام آدمی کی یہ توقعات پوری ہوجاتی ہیں تو بلاشبہ یہ بہت بڑی جیت ہوگی۔کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ انصاف کے لیئے ہر سطح پر دھکے کھاتے کھاتے تنگ آچکے ہیں۔اگر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ صرف نااہلی یا ایک خاندان کو حکمرانی سے اتارنے کا سبب بنتا ہے اور صرف اس کے خلاف ہی کارروائی کرکے خاموش ہوجاتا ہے تو پھر لوگوں کی توقعات اور امیدوں کو شدید دھچکا لگے گا۔ کیونکہ اتنے بڑے فیصلے کے بعد جس میں ملک کے وزیراعظم کو فارغ کردیا گیا۔اب ان کی خواہش یہ ہے کہ ان تمام افراد کے خلاف جو کسی بھی ادارے یا طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔لیکن کرپشن یا دھاندلی میں ملوث ہوں ان کے خلاف بھی کچھ ایسی عبرت ناک کاروائی کی جائے اور یہ سلسلہ ایک روایت کی شکل اختیار کرلے نہ کہ صرف ایک کیس یا پھر خاندان تک محدود رہے۔جو لوگ اس فیصلے کے اثرات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے فیصلے کو صبر اور سکون سے برداشت کرنا بھی ضروری ہے تاکہ جمہوری روایات سربلند ہوں اور قانون کی بالادستی قائم ہوسکے۔دوسرے الفاظ میں ایک اور اہم ترین بات یہ ہے کہ حکمرانی یا جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ فیصلہ آگیا ہے ،اب دونوں پارٹیوں کو اسے تحمل سے برداشت کرنا ہوگا کیونکہ اگلے الیکشن میں ایک سال سے کم کا عرصہ رہ گیا ہے۔اس کے علاوہ 2018 کے شروع ہی میں سینٹ کے الیکشن بھی ہونگے جس کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔پاکستان کوئی بہت اچھی صورت حال سے نہیں گزررہا نہ تو ہم اقتصادی طور پر مضبوط ہیں نہ ہی علاقائی طور پر،پر سکون ہیں۔ خود ہمارے حکمران اپوزیشن کی جماعتیں ،،ماہرین ،فوجی قیادت اور میڈیا بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک کو شدید قسم کے بیرونی اور خارجہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ سی پیک ابھی بامشکل ابتدائی مرحلوں میں ہے۔جس پر پاکستان نے اپنی ترقی اور مستقبل کا تمام تر انحصار کیا ہوا ہے۔ایک اور بڑا بنیادی معاملہ دہشت گردی اور امن وامان کا ہے جسے بڑی مشکل سے سول اور فوج قیادت مل کے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس میں بھی کسی بھی قسم کی کمزوری یا سست روی ملک کے لیئے زبردست نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔افغانستان ،بھارت ،بنگلادیش اور ایران سے جس قسم کی کشمکش چل رہی ہے اس کے لیئے ضروری ہے کہ ملک میں ایک مضبوط جمہوری حکومت ہو کیونکہ دوسری صورت میں پھر ہمیں یہ شکایت ہونے لگے گی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کمزوری کا شکار ہے۔اور یہ شاید اب ہمارے لیئے ناقابل برداشت ہو۔اگر اس فیصلے کے بعد ہم ان سب باتوں پر نظر رکھتے ہوئے بہتر حکمت عملی مرتب کرتے ہیں۔تو پھر ملک کے لیئے آگے بڑھنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔لیکن اگر کسی فتح کی خوشی یا شکست کے ماتم میں سیاسی جماعتیں اور عوام ڈگمگا گئے تو پھر گزشتہ ادوار کی طرح ایک بار پھر نئے سرے سے ملک کو چلانا پڑے گا۔جو شاید کسی کے لیئے بھی سود مند ثابت نہ ہو۔