پاکستان کی عا لمی منظر نامے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت (1)
انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران برطانوی راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔برطانیہ نے اپنی قلمرو کو توسیع دینے کے لئے فوج کشی سے کم، مکاری سے زیادہ کام لیا۔"لڑائو اور حکومت کرو"۔حریف میں پھوٹ ڈال کر اسے کمزور کیا پھر پیش قدمی کرتے ہوئے قبضہ کرلیا۔یہ ان کی بنیادی پالیسی تھی۔ہندوستان ایک پرامن اور خوشحال ملک تھا۔یہاں کے مسلمان حکمران لگ بھگ ایک ہزار سال سے حکومت کررہے تھے۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے تھے گوکہ یہاں کے حکمران مسلمان تھے مگر ان کی مذہبی رواداری کی وجہ سے مقامی آبادی ہنسی خوشی اور چین و سکون سے زندگی گذار رہی تھی۔یہ مسلمانوں کی رواداری کا کا اہم ثبوت تھا۔مغلیہ حکومت کے آخری دور میں مختلف اہم عہدوں پر ہندو تعینات تھے۔محمد بن قاسم کے دور سے لے کر اب تک مقامی آبادی کا بڑا حصہ مسلمان ہوچکا تھا۔حکومت نے اس سلسلے میں کسی قسم کے جبر یا لالچ سے کام نہیں لیا۔ہر ایک اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا البتہ ہندوئوں میں ذات پات کے نظام کی وجہ سے طبقاتی تفریق موجود تھی۔مسلمان حکمرانوں اور صوفیاء کرام کے طرزِعمل کے باعث آبادی کے تناسب میںاس قدر تبدیلیاں آئیں کہ رفتہ رفتہ مسلمان یہاں کی غالب آبادی بن گئے۔اس تبدیلی میں مذہبی تبدیلی کے علاوہ سب سے اہم وجہ مسلمانوں کی آبادی میں بے حد اضافہ تھا۔انگریز تجارت کی آڑ میں ہندوستان میں داخل ہوئے اور رفتہ رفتہ منصوبے کے مطابق مقامی سطح پر طاقت کے مراکز کو آپس میں لڑا کر اپنے "گریٹ بریٹن"کے منصوبے کا آغاز کردیا۔ہندو مسلم کے درمیان نفرت کا بیج بودیا گیا۔انگریز نے اس سلسلے میں بڑے عرصے تک ہندوستان کا سماجی ، ثقافتی اورتاریخی مطالعہ کیا اور ان معلومات کا باریک بینی سے تجزیہ کرکے اپنے لئے حکمت عملی وضع کی۔ اس حکمت عملی کا اہم نکتہ"کم وسائل سے زیادہ سے زیادہ کا حصول"تھا۔یوں انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں انہوں نے پورے ہندوستان کو مغلوب کرلیا۔1857ء کے بعد ہندوستان کو باقاعدہ طور پر برطانوی تاج کی عمل داری میں لے لیا گیا۔خلافت عثمانیہ جو کہ ایک بڑی اسلامی مملکت تھی۔عرب دنیا پر بھی ان کا جھنڈا لہراتا تھا۔ان کا بھی حسن انتظام بہت عمدہ تھا۔ مگر ملوکیت کے باعث ان میں بھی بہت سی کمزوریاں آگئی تھیں۔یہاں بھی برطانیہ نے اپنی شاطرانہ چالوں کی مدد سے عرب علاقوں کو بغاوت پر آمادہ کیا اور نئی خود مختار مملکتوں کا قیام وجود میں لے آیا بعد میں عالمی سازش کے تحت عربوں کے سر پر اسرائیل کی صورت میں ایک دائمی ناسور مسلط کردیا۔برطانیہ نے مختصر عسکری طاقت اور شاطرانہ ہتھکنڈوں کی مدد سے ہندوستان پر قبضہ تو کرلیا تھا مگر اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے اسے افرادی قوت کی ضرورت تھی۔افرادی قوت کی اتنی بڑی تعداد میں فراہمی برطانیہ کے لئے ناممکن تھی لہٰذا اس ضرورت کو مقامی باشندوںسے پورا کرنے کے لئے اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام کو نافذ کیا۔پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔اس کا بنیادی مقصد ملک میں تیز رفتاری سے اپنی نقل و حرکت کو ممکن بنانا تھاریل کا جال بھی ملک بھر میںاسی لئے پھیلا دیا۔ دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام قائم کیا ۔ملک بھر میں پولیس اور انتظامی نظام کو مربوط کیا تاکہ ملک کے دور و نزدیک تک اپنی رسائی ممکن بنا سکے۔ملکی انتظامی معاملات کو مرکزی نظم میں لانے کے باعث عام آدمی کو فائدہ ہوا اور طبقاتی تفریق میں واضح کمی آئی۔برطانیہ نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی لہٰذا ان کی جانب سے مزاحمت کو ہندو آبادی کے ذریعے ناکام بنایا۔ہندو انگریزوں کی پشت پناہی میں امتیازی حیثیت کے حامل ہوگئے۔پنجاب کی حکومت سکھوں سے چھینی تھی لہٰذا یہاں مسلمانوں اور ہندوئوں کی پشت پناہی کی گئی۔انگریزوں نے اپنے مطالعاتی تجزیئے کی روشنی میں برصغیر کے مختلف علاقوں میں اپنے حامی لوگوں کو طاقت دے کر ان کے ذریعے اپنی حاکمیت کو استحکام بخشا۔جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں انگریزوں کے حمایت یافتہ لوگوں میں ہندوئوں کی بڑی تعداد تھی۔گنتی کے چند مسلمان بھی تھے جو اپنی جھوٹی شان کے لئے انگریز وں کے محتاج تھے۔ان سے وفاداری میں اتنے آگے نکل گئے تھے کہ عوام میں انہیں انگریزوں کے کتے نہلانے والے کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔جنگ عظیم دوم انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے اس جنگ میں لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوا اور انسانی آبادیوں کی تباہی کا صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔اس جنگ میں بالخصوص مردوں کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت کے باعث یورپ میں ان کے کارخانوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کو چلانے کے لئے افرادی قوت کا بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے خواتین کو بھی میدان عمل میں آنا پڑا مگر یہ خلا پر نہ ہوسکا۔ان حالات میں ترکی اور برصغیر کے لوگوں نے اس خلا کو پر کیا۔جنگ عظیم دوم کے نتیجے میں بہت سے ملکوں نے آزادی حاصل کی گو کہ برطانیہ(اتحادی) جنگ جیت چکا تھا مگر اب اپنی نوآبادیوں پر گرفت برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔اسی دوران دنیا بھر میںآزادی کی تحریکیں زور پکڑ چکی تھیں۔ہندوستان میں بھی آزادی کی تحریک زور پکڑ چکی تھی۔برطانیہ اب مزید برصغیر میں نہیں رہ سکتا تھا۔اس نے ہندوئوں اور مسلمانوںکے درمیان جو نفرت کا بیج بویا تھا وہ تناور درخت بن چکا تھا۔ہندوستان کی آزادی کی تحریک نے جب زور پکڑا تو ہندوئوں نے آزادی کو قریب جان کر اپنی روایتی مکاری سے کام لیتے ہوئے مسلم دشمنی کے پروردہ دہشت گرد جتھے منظم کرنے شروع کردیئے۔ جب ان کی سرگرمیاں سرعام ہونے لگیں تو آل انڈیا کانگریس میں شامل مسلم زعما کا ماتھا ٹھنکا ، انہیں مسلمانوں کا مستقبل مخدوش نظر آیا ۔اس خدشے کے پیش نظر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔تاہم کانگریس میں اب بھی مسلمان رہنما شامل تھے۔جلد ہی قابل ذکر مسلمان لیڈر بھی مسلم لیگ کے جھنڈے تلے آگئے۔ہندوئوں کے مجموعی مسلم دشمن رویے کے باعث جو لوگ آل انڈیا مسلم لیگ میں آئے ان میں محمد علی جناح ؒ بھی شامل تھے ۔مسلم لیگ کے جھنڈے تلے قائد اعظمؒ کو مفاد پرستی اور موقع پرستی کا سامنا کرنا پڑا ، وہ دلبرداشتہ ہوکر انگلینڈ چلے گئے۔ بہت سے مسلم لیگی رہنما انہیں واپسی کے لئے رضا مند کرنے انگلینڈ گئے مگر انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ان کے عظم و استقلال کا یہ عالم تھا کہ علامہ اقبال ؒ جیسے دانشور بھی ان کی رہنمائی کے قائل تھے۔ایک بار انہوں نے برملا کہا کہ وہ قائد اعظم ؒ کی فوج کے سپاہی ہیں ۔ عوام میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ مسلمانوں نے انہیں قائد اعظم کا خطاب دیا مگر ساتھیوں کی موقع پرستی اور جھوٹ سے انہیں بے حد صدمہ پہنچا۔ انگلینڈ سے واپس نہ آنے کا ان کا عہد ایک دن خود ہی ٹوٹ گیا اور وہ ہندوستان آگئے۔ہندوستان اپنی جغرافیائی ہیت اور متنوع آبادی کی وجہ سے دنیا کا منفرد ملک تھا۔
(جاری ہے )