سیپکو ا ربوں کی کرپشن ، چیف سیپکو اور افسران !
پاکستان کے ایک سیاستدان نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں اپنی سیاسی چکا چوند اور جھلک دکھادی ہے کہ لوگ بے چارے اب تک اسی سحر میں مبتلا ہوکر پوری قوم کو اپنے جیسا اور پاکستان کو وہ میک اپ زدہ نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں کہ جس کی وہ جھلک اسلام آباد میں دیکھ چکے ہیں۔ ۔ مزید بر آں نواز شریف نے خود کو لیکس کیس کے لئے پیش کردیا تھا تاکہ آئندہ تمام لیکس زدگان اس کی زد میں آتے جائیں مگر عقل و شعور سے بے بہرہ یہ لوگ خود پر آنے والے وقت سے بے نیاز مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گھروں اور کام کاج سے فارغ لوگ ہیں جن کو یہ پرواہ نہیں کہ ملک کے دیگر معاملات کیا ہیں ، کتنے اہم ہیں اور آج کل ان معاملات کی ملک کے سیاسی سماجی مستقبل سے کتنی اہم وابستگی ہے اور ملک کے معاشی اقتصادی حالات کیا ہیں اور کن عناصر پر انحصار کر رہے ہیں۔ بس ان کے لئے اپنے گھر کا چولہا اور بجلی پانی چلنے کی کوئی اہمیت ہے نہ ملکی ترقی کی رفتار کے پہیئے کے چلنے یا رکنے کی پرواہ۔ لگتا ہے کہ ان کو سکھایا گیا ہے کہ جو جھلک آپ اسلام آباد میں دیکھ اور چھو چکے ہیں آئندہ کے لئے اس کی راہ کی رکاوٹ نوازشریف ہے۔ ان کے لیڈر جینز کی دن رات پہنی ہوئی پینٹ اترے بھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب انہوں نے پاکستانی بننے کے لئے شلوار قمیص پہننی شروع کی تو انہیں بیٹھنے اٹھنے اور چلنے پھرنے میں کچھ دن تکلیف محسوس ہوا کرتی تھی۔ اور شرم بھی آیا کرتی تھی جس کا اکثر وہ اظہار بھی کیا کرتے تھے۔ یہ باتیں ایک دفتر میں بیٹھے چند نہایت سلجھے ہوئے لوگ کر رہے تھے۔ یہ دفتر تھا سیپکو سندھ سکھر سیکریٹریٹ کے ایک شعبے کا جہاں یہ سنجیدہ لوگ اپنے اپنے اضلاع کے مسائل کے حل کے لئے مختلف سیاسی سماجی کاروباری تنظیموں کے نمائندو ں کے طور پر چیف سیپکو سے ملنے آئے ہوئے تھے میں بھی چیف سیپکو کے کام کے انداز کی تعریف سن کر پنو عاقل جاتے ہوئے راستے میں ان سے چند لمحے ملنے رک گیا تھا۔ ہم چند افراد کو ایک کمرے میں بٹھادیا گیا تھوڑی دیر بعد وہاں ایک سادہ سے لباس میں ملبوس ایک نہایت سادہ صفت انسان داخل ہوا اور نہایت خندہ پیشانی سے مل کر ریوالونگ چیئر پر جا بیٹھا پتہ چلا کہ جناب یہ پورے سندھ کے بجلی کے نظام پر مشتمل سیپکو کمپنی کے سی ای او لطیف انجم ہیں۔یقین جانیں بہت حیرانی ہوئی کیوں کہ قبل ازیں ایک آدھ چیف سیپکو سے جب ملاقات ہوئی تھی تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سیپکو کا نہیں بلکہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ ہے اور حامل سیکریٹریٹ پاور کمپنی کا نہیں بلکہ نیٹو فورسز کا چیف ہے۔ مگر یہاں تو صورتحال برعکس تھی چیف موصوف نے نہایت خوش اسلو بی سے سب کے ساتھ حال احوال کیا اور اس توجہ اور انہماک سے کاروباریوں کے مسائل سنے اور ان کے فوری حل کے لئے احکامات صادر کروائے کہ یقین نہیں میرے پنو عاقل جاتے وہاں رک جانے کا مقصد بھی سنی سنائی کو خود دیکھنا بھی تھا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ جس کام کے لئے قبل ازیں اسی دفتر میں بریف کیس آیا کرتے تھے اب یہاں اس طرح کا کوئی بریف سا کیس بھی آنے کی جرات نہیں کرتا۔مجھے سی ای او صاحب کے ان کارناموں کی نہایت احتصار کے ساتھ بھی یہاں ذکر کرنے کی جگہ میسر نہیں ہے کہ قبل ازیں جس طرح واویلا مچا ہوا کرتا تھا کہ چوری چوری بجلی چور وغیرہ وغیرہ یعنی اس مثال کی مصداق کے چیکنگ کے دوران گاڑی کے اندر گھس گھس کر تلاشیاں لی جاتی تھیں اور کلیئرنس دے دی جاتی تھی اور گاڑی بڑے اطمننا ن کے ساتھ توپ گاڑی کے چھت پر رکھ کر لے جایا کرتی تھی۔ چیف سیپکو نے یہ گاڑی والا سلسلہ یوں ختم کیا کہ ان کے سیکریٹریٹ کے مختلف شعبوں میں مختلف اضلاع کے سپرینٹنڈنٹ انجنیئرز اور اضلاع کے افسران کی ملی بھگت کی بھی مانیٹرنگ ہونے لگی اور صرف قلم کی اک جنبش سے کروڑوں اربوں روپوں کے منصوبوں کی کاغذوں میں تشکیل اور پھر اس کی نیچے سے اوپر تک کی بندر بانٹ کو یوں بریک لگ گئی گویا بکری کہیں جا رہی ہو اور اسے راستے میں شیر نظر آجائے۔ اور اس طرح سیپکو خزانے اور بجٹ کے اربوں روپے چیف سیپکو کی تعیناتی کے دوران ملک کے خزانے میں ہی رہے کسی چیف ،ایس ای ، ڈائریکٹر کی جیب میں نہیں گئے۔ رہ گئی بات صارفین اور ملازمین کے مابین ریکوری اور چوری کے معاملات تو یہ صرف دکھانے کے تھے کھانے کے وہ تھے جن کا میں ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ چیف سیپکو کا پینٹ کوٹ دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ وہ ملک عزیز کے نہایت ہی معدود ے چند بڑے افسران میں سے ایک افسر ہیں کہ جن کو حقیقی معنوں میں ملکی عوام فخر کے ساتھ بڑ ا افسر کہہ سکتے ہیں کیوں کہ ہمارے حکومتی اداروں کے خزانوں کے ساتھ جو حشر کیا گیا ہے اس کا حشر نشر آج کل کھلے عام نشر ہو رہا ہے میں نے باقاعدہ اپنے کانوں سے چیف کے ماتحت سندھ بھر میں پھیلے ہوئے کئی افسران سے سنا ہے کہ یار نہ جانے کب یہ چیف جائے گا۔جب کہ دوسری طرف یہ لوگ چیف کے نام اور کام سے ہی اس طرح نہایت شریف بننے کی کوشش میں دلیلیں دیتے ہیں گویا یہ تربیت کے نہیں پیدائشی شریف ہوں جب کہ ان کی شرافت ہر ضلع شہر اور تحصیل کا ایک ایک شخص دیکھ چکا ہے اور ان کی شرافت کے تجربات سے دن رات گذر رہا ہوتا ہے۔ شاید قارئین یقین نہ کریں کہ سندھ کے سیپکو کے ایک بدنام زمانہ ڈویژ ن کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر شہر کے بارہ بجلی کے فیڈر میں سے ان شریفوں نے گیارہ فیڈر جنوری سے تاحال صبح سے شام تک بند رکھ کر عوام کو مختلف عوارض میں مبتلا کردیا ہے جس کی طرف چیف نے پورا موقع دینے کے بعد اب نظر اٹھائی ہے اور سننے میں بہت کچھ آرہا ہے مقصد تھا صرف چند ماہ میں عظیم کرپشن کے اربوں روپے سیپکو نے کاغذ وں لفظوں اور نقشوں کی ہیر پھیر سے بچا لیے ہیں جو سی پیک انڈسٹریل زون کو بجلی کی سپلائی کے منصوبوں پر کام آئیں گے۔ چیف تو نہیں جا رہے مگر سیپکو افسران ان کے جانے کے انتظار میں بے چین ہیں۔