فاروق عالم انصاری
خدیجہ مستور ناول کے بارے میں ایک عجیب رائے رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مفلسی اورپریشان حالی کے عالم میں ناول یہاں نہیں پنپ سکتا۔ خدیجہ مستور یہ رائے دے کر فارغ ہوئیں۔ اب انتظار حسین نے اس سے یہ نتیجہ نکالاکہ نہ نومن تیل ہو گا اور نہ ہی رادھا جی ناچیں گی۔ نہ اردو کا ادیب امیر کبیر بنے گا اور نہ ناول لکھا جائے گا۔ گوجرانوالہ کے ایک لندن پلٹ نوجوان سلمان بٹ نے یہ بات غلط ثابت کر دی ہے۔ وہ سرے سے امیر کبیر بھی نہیں اور انہوں نے ایک ناول”گھائل روحیں“ بھی لکھ مارا ہے”گھائل روحیں“ ان کے ناول کے اردو ترجمے کا نام ہے۔ اصل ناول انگریزی میں لکھا گیا ہے۔ ان کے پتلے حالات کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ انہیں اپنے انگریزی ناول کا خود ہی اردو میں ترجمہ کرنا پڑا۔ ورنہ یہ کام بہت تھوڑے روپوں میں ہو سکتا تھا۔ رہے امیر کبیر لوگ وہ تو اپنا اخبار میں چھپا ہوا کالم بھی پڑھنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ ذہن پر زور دیکر بات سمجھنے کی کوشش کریں آپ کو مطلوبہ بات سمجھ میں آ جائیگی۔ امیر کبیر لوگوں کے شوق اور طرح کے ہوتے ہیں۔ مولانا روم اور شیخ سعدی کے زمانہ میں لکھنے والوں کو کتنی آزادی میسر تھی۔ ان بزرگوں کی بے شمار حکایات ایسی ہیں جنہیں ماں، بہن اور بیٹی کے سامنے نہیں پڑھا جا سکتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان زمانوں میں تعلیم نسواں کا رواج خاصا کم تھا۔ اسی لئے ہمارے یہ بزرگ جو جی میں آئے لکھتے رہے۔ اب ایسے حالات نہیں رہے۔ تعلیم کے میدان میںلڑکیاں لڑکوں سے بڑھ گئی ہیں۔ اسلئے ہم جتنا لکھ چکے ہیں اسے ہی کافی سجھا جائے۔ میں امیروں،نوابوں کے اس شوق کو اور وضاحت سے نہیں لکھ سکتا۔ امیر کبیر لوگوں کے کئی اور شوق بھی تو ہیں۔ صرف ایک یہی شوق تھوڑا ہے۔ سو یہ کالم رکے گا نہیں اور قلم چلتا رہے گا۔ ابھی ہندوستان آزاد نہیں ہوا تھا۔ حسرت موہانی نام کے ایک شخص تھے، شاعر بھی اعلیٰ درجہ کے اور سیاستدان بھی اول کلاس۔ ہم نے کالم آخر کار کھینچ کھانچ کر سیاست کے میدان میں لے جانا ہے اسلئے شاعر حسرت موہانی کو چھوڑکرصرف سیاستدان حسرت موہانی کا ذکر کرتے ہیں۔ جب مہاتما گاندھی سمیت پوری کانگرس صرف درجہ نو آبادیات کی بات کر رہی تھی۔ انہوں نے مکمل آزادی کا مطالبہ داغ دیا۔ کانگرس کے احمد آباد اجلاس میں وہ اکیلے تھے۔ ہندوستان بھر میں اکیلے، مکمل آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے۔ عمر قید و بند میں گزری لیکن شاعری بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
سستی سی عینک کی ایک کمانی ٹوٹی ہوئی۔ دھاگہ باندھ کر گزارہ کیا ہوا۔ لباس کے نام پر موٹے جھوٹے کپڑے سر پرٹوپی جس پر میل کچیل نے ایک چمک پیدا کر دی تھی۔ ایک لوٹا، ایک مصلیٰ، بستر بند کے طور پر ٹاٹ کا ٹکڑا۔ یہی کل سامان سفر، سواریوں والے تانگے پر کیا ٹھسے سے بیٹھتے تھے۔ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی لوک سبھا کے ممبر تھے۔وہیں کہیں قریب ہی اجلاس کے دنوں میں ایک چھوٹی سے مسجد میں رات بسیرا کرتے۔ اک جگنو سے ہی ویرانے کی شام جی اٹھتی ہے واہ! ان کے آ جانے سے وہ ویران مسجد کا آباد ہو جایا کرتی تھی۔ اب ایسی کہانی لکھ کر جی جلانے کی بھلا ضرورت کیا ہے۔آج کے سکہ رائج الوقت امیر کبیر سیاستدانوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف کا اک تازہ بیان پڑھیں۔ آپ اسے سیاسی نوحہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے الیکشن ایک سال کے لئے موخر کئے جانے کا خدشہ بیان کیا ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کالم میں الیکشن کیسے آ گیا۔ بھئی امیر کبیر لوگوں کا سب سے پسندیدہ شوق یہی سیاست ہے۔ سیاست الیکشن سے شروع ہوتی ہے۔ اب تو ہندوستان کے سماجی کارکن انا ہزارے نے سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف ”جہاد“ کرتے کرتے خود ہی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ میاں نواز شریف کے بیان سے یوں دکھائی دیا جیسے محبوب نے وعدہ وصل مزید ایک سال کیلئے ٹال دیا ہو۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ن لیگ پنجاب میں حکمران جماعت ہے، پھر یہ تشویش اور بے صبرا پن کیوں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ میں خاصا موٹا فرق ہے پھر اپنی شادی کی اور بات ہوتی ہے،سگے بھائی کی شادی کی اور بات۔ بھائی کی شادی میں زیادہ سے زیادہ بھنگڑا ہی ڈالا جا سکتا ہے۔ اپنے سر پر سہرا سجا کر دولہا بننے والا معاملہ نہیں ہوتا۔ الیکشن کے موخر ہونے کی خبر پر ن لیگ سے زیادہ تشویش تحریک انصاف کے امیدواروں کے حلقوں میں ہے۔ وہ بیچارے ابھی سے حالت جنگ کی طرح حالت الیکشن میں ہیں۔ اگر یہ دورانیہ ایک سال اور بڑھ گیا تو اخراجات کہاں پہنچ جائیں گے؟ یہ حساب کتاب میں ابھی کالم لکھ کر گوجرانوالہ سے تحریک انصاف کے قومی اسمبلی حلقہ این اے96 کے متوقع امیدوار بیرسٹر علی اشرف مغل سے پوچھنے جاﺅں گا۔ رہے بیچارے عوام، ان کا الیکشن کے بعد کیا حال ہو گا؟ یقیناً وہی جو الیکشن سے پہلے ہے
واعظ سادہ لوح سے کہہ دو، چھوڑ دے عقبیٰ کی باتیں
اس دنیا میں کیا رکھا ہے، اُس دنیا میں کیا کیا ہو گا
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024