پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور عوام کی مشکلات میں اضافہ
ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات واضح تر ہوتی جارہی ہے کہ حکمران اتحاد جن الزامات کی بنیاد پر سابقہ حکومت کو اپریل 2022ءمیں ہٹا کر اقتدار میں آیا تھا اب وہ مسائل زیادہ شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ نو مہینے سے زائد عرصے میں حکمران اتحاد نے اب تک کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کیا جسے عوام کے لیے حقیقی ریلیف قرار دیا جاسکے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام کی پریشانیاں جس طرح بڑھی ہیں اس کا احساس حکمران اتحاد میں شامل کسی بھی جماعت یا شخص کو نہیں ہے۔ یہی لوگ اقتدار میں آنے سے پہلے تک روزانہ بیانات، جلسے جلوسوں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام کو بتایا کرتے تھے کہ فلاں شے کی اصل قیمت اتنی ہے لیکن حکومت کی نااہلی کی وجہ سے یہ چیز مہنگی بک رہی ہے۔ جب سے اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا ہے یہ لوگ اشیاءکی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ کررہے ہیں اور مہنگائی کے حق میں جواز بھی تراش رہے ہیں۔
اس سلسلے میں تازہ واردات یہ ہوئی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35روپے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس اضافے کا اعلان کیا جس کے فوری بعد نئی قیمتوں کا اطلاق کردیا گیا۔ قیمتوں میں اضافہ عام طور پر ہر پندھرواڑے ہوتا ہے اور نئی قیمتوں کا اطلاق مہینے کی پہلی یا سولہ تاریخ کو ہوتا ہے لیکن اس بار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایما پر مزید تین روز انتظار کرنے کی بجائے قیمتوں میں فوری طور پر اضافہ کردیا گیا۔ اضافے کا اعلان کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت کی خبریں سامنے آئیں اور عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً 11 فیصد تک کا اضافہ ہوا، ہمیں ان سب چیزوں کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے 4 ماہ میں ایک بار بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کو نہیں بڑھایا گیا بلکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 20 روپے تک کی کمی کی گئی جبکہ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 29 اور 30 روپے کی کمی کی گئی۔
اسحاق ڈار جو کچھ کہہ اور کررہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں، اعداد و شمار اور مختلف طرح کے حیلے بہانوں کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہر حکمران اپنا فرض سمجھتا ہے اور اسی اقدام کے ذریعے وہ اپنے حامیوں کی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے اپنے مخالفین کے منہ بند کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے تجویز پیش کی گئی کہ پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت کو ختم کرنے کے لیے قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ اس بیان کے ذریعے وہ تسلیم کررہے ہیں کہ ان کی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ وہ تمام ریاستی مشینری اور وسائل میسر ہونے کے باوجود ذخیر ہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرسکے۔ یہی اوگرا جس نے وزارتِ خزانہ کو پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت ختم کرانے کے لیے قیمتوں میں اضافے کی راہ سجھائی، کل تک کہہ رہی تھی کہ قیمتوں میں اضافے سے متعلق جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں وہ غلط ہیں۔ ایسی قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔
دوسری جانب، وفاقی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیے جانے والے بڑے اضافے پر ردعمل دیتے ہوئے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں روپیہ 14 سے 15 فیصد تک گرا ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ابھی مزید بڑھائی جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف آئے گا تو قیمتیں اور بڑھوائے گا۔ یہ حکومت ابھی گیس کی قیمت بھی بڑھائے گی۔ ایک نجی ٹیلیویژن چینل سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے یہ بھی کہا کہ یہ حکومت آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھوں تو ڈال سکتی نہیں، یہ تو صرف نیب قوانین کو تبدیل کرنے حکومت میں آئے تھے۔ آئی ایم ایف کا دباو¿ آیا تو انھوں نے ایک دم سے قیمتیں بڑھا دیں۔ شوکت ترین یہ سب یوں کہہ رہے ہیں جیسے انھوں نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں جاری کی ہوئی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت آج جس منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے اس تک پہنچانے کے لیے ہر سابقہ حکومت نے اپنا کردار کیا اور شوکت ترین انھی میں سے دو حکومتوں کی طرف سے وزارتِ خزانہ کے سربراہ مقرر کیے گئے۔
مسلسل عدم استحکام کا شکار معاشی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ کوئی واضح اور دیرپا پالیسی اختیار کر کے مسائل کے آگے بند باندھا جائے۔ موجودہ حکومت کے لیے یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ کوئی ایسی پالیسی تشکیل دے سکے کیونکہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اندریں حالات، مناسب یہی ہے کہ حکمران اتحاد جلد از جلد نئے عام انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے معاملات نگران حکومت کے سپرد کرے تاکہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نئی حکومت تازہ مینڈیٹ کے ساتھ کوئی قابلِ عمل پالیسی اختیار کر کے مسائل کا حل فراہم کرنے کی کوشش کرے۔ عوام کی مشکلات میں یہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں جس حد تک اضافہ کرچکی ہیں اس کے بعد ان کا اقتدار سے الگ ہونا ہی مناسب اقدام معلوم ہوتا ہے۔