وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں پینتیس روپے کے بڑے اضافے کا اعلان کیا ہے۔
یقینا اس اعلان کو بھی وسیع تر ملکی مفاد کا نام دیا جائے گا۔ یقینا ملکی مفاد عزیز تر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا یے کہ کیا بوجھ صرف عوام پر ہی ڈالا جائے گا۔ بہرحال ابتدائی طور پر سب سے پہلے قربانی تو صرف عام آدمی پر ہی پڑا ہے۔ بہرحال آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً گیارہ فیصد تک کا اضافہ ہوا، ہمیں ان سب چیزوں کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ پیٹرول کی قیمت میں پچاس روپے فی لیٹر تک اضافے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، گذرے چار ماہ میں ایک بار بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کو نہیں بڑھایا گیا بلکہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں تقریباً بیس روپے تک کی کمی کی گئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ روپے کی قدر کے اعداد و شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35، 35 روپے فی لیٹر جبکہ لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 18، 18 روپے فی لیٹر اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ پیٹرول کی نئی قیمت 249 روپے 80 پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 262 روپے 80 پیسے فی لیٹر ہو گی۔
حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عام آدمی کی کمر توڑی ہے۔دیکھیں پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوںگی اس کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی بڑھ جائے گی، کھانے پینے کی اشیاء بھی مہنگی ہوں گی، ادویات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو جائے گا۔ زندگی گذارنے کی تمام بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو گا۔ تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو گا لیکن اخراجات بڑھ جائیں گے۔ ان حالات میں اچھی بھلی آمدن رکھنے والے افراد بھی بری طرح متاثر ہوں گے اور یہ تعداد کروڑوں میں ہے یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ کروڑوں افراد مہنگائی کی اس لہر سے متاثر ہوں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، کیا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پہلا اور آخری حل ہے۔ کیا حکومت کے پاس اس کے علاوہ پیسہ بچانے یا پیسہ اکٹھا کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ اگر عام آدمی پر ہی بوجھ ڈالنا ہے تو یہ سب سے آسان کام ہے۔ یہ کوئی بھی کر سکتا ہے، اتنے پڑھے لکھے، اتنے وسائل رکھنے والے اور حکمرانی کا وسیع تجربہ رکھنے والے بھی سب سے آسان راستہ اختیار کریں تو عام آدمی کے لیے کون سوچے گا۔ کیوں حکومت معاملات چلانے کے لیے صرف عام آدمی کو پھنسانے یا اس پر بوجھ ڈالنے کے بجائے کوئی اور راستہ نہیں نکالتی۔ کیا عام آدمی پر بوجھ ڈالنا سب سے آسان ہے، حکومتی فیصلوں سے تو محسوس ہوتا ہے کہ عام آدمی پر بوجھ ڈالنا سب سے آسان راستہ ہے۔
اگر حکومت واقعی مالی مشکلات کا شکار ہے، ملک کو مالی مسائل کا سامنا ہے، معیشت کمزور ہوتی جا رہی ہے تو پھر کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ حکومت اپنے اخراجات بھی کم کرے۔ کیا وزیراعظم یہ اعلان نہیں کر سکتے تھے کہ وہ قومی اسمبلی کے تمام اراکین کی مراعات ختم کر رہے ہیں۔کیا یہ ممکن نہیں کہ منتخب نمائندے بھی ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، اگر بوجھ صرف عام آدمی پر ڈالا جائے گا تو یہ سوچ ضرور پیدا ہوتی ہے کہ آخر کمزور طبقہ ہی بوجھ کیوں برداشت کرے، کمزور طبقہ ہی قربانی کیوں دے، کمزور طبقہ ہی مشکلات کیوں برداشت کرے، کمزور طبقہ ہی سمجھوتا کیوں کرے، کیا یہ سب کی ذمہ داری نہیں ہے، کیا یہ سب کا ملک نہیں ہے۔ جب کمزور یہ دیکھے گا کہ حکمرانوں کو تو فرق نہیں پڑا، ان کی تو گاڑی چل رہی ہے تو پھر لوگ سوال کریں گے کہ انہیں کوئی فرق کیوں نہیں پڑتا، یہ قربانی کیوں نہیں دیتے۔ اس سوچ سے نفرت پھیلتی ہے۔ حکومت عام آدمی پر بوجھ ڈالے لیکن اپنے اخراجات بھی تو کم کرے۔عوام کو سہولت دینا کس کی ذمہ داری ہے اگر حکمران اپنے خرچے کم نہیں کر سکتے تو پھر عام پر بھی بوجھ نہ ڈالیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے سیاست کوئی نہیں کرنا چاہتا، عام آدمی کے نام پر سیاست سب کرنا چاہتے ہیں، کوئی عام آدمی کو اہمیت نہیں دینا چاہتا لیکن عام آدمی کے مسائل پر جذباتی گفتگو سے مارکیٹ میں سب رہنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کچھ کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں کہ سہولت پیدا نہ کی جا سکتی ہو، راستہ نکالا نہ جا سکتا ہو۔ کاش کوئی حکمران اس طرف بھی سوچے۔ آج عمران خان کو مہنگا ہوتا پیٹرول تکلیف دے رہا ہے لیکن ان کے اپنے دور حکومت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر مہنگے پیٹرول کا موازنہ کیا جاتا تھا اور یہ ثابت کیا جاتا تھا کہ پاکستان میں پیٹرول دیگر ممالک سے سستا ہے۔
زیر دفاع خواجہ آصف نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو سابق صدر آصف علی زرداری پر قتل کی سازش کے الزام سے متعلق بیان پر آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ عمران خان نے نیا پینترا بدلا ہے، الزام لگایا ہے کہ آصف زرداری انہیں قتل کرانا چاہتے ہیں، ہماری سیاست میں ایسے واقعات نہ پہلے ہوئے ہیں اور نہ آئندہ ہوں گے، سیاسی اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔عمران خان کے بیان سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو جان کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے، پیپلز پارٹی تو وہ جماعت ہے جس نے بھٹو اور بے نظیر کی شہادت کو بھی قبول کر کے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا ہے۔
عمران خان کو ایسے بیانات سے گریز کرنا ہو گا یہ بیانات سیاسی تو ہیں لیکن یاد رکھیں یہ شر انگیزی ہے، یہ نفرت پھیلانے کی سوچ ہے۔ ایسے بیانات سے عوامی سطح پر بیچینی پھیلتی ہے۔ ووٹرز جذباتی ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات کو بھڑکانے سے امن و امان کے حالات خراب ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ یہ بیان واپس لیا جانا چاہیے اور اگر واقعی اس قسم کی سازش یا منصوبہ بندی کے حوالے سے معلومات ہیں تو متعلقہ اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں بیان بازی کی بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024